کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 12
قرآن کی لغوی و اصطلاحی تعریف
قرآن مجید کے حقوق پر بحث کرنے سے قبل صائب و مناسب ہے کہ اس کی لغوی و اصطلاحی تعریف بیان کی جائے۔
لغوی تعریف:
قرآنِ مجید لغوی اِعتبار سے اسم ہے۔ فعل و حرف نہیں پھر اس کے اِسم ہونے کے بارے میں علماء کے دو گروہ ہیں۔
٭ علماء کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ لفظ قرآن اسم جامد و غیر مہموز (بغیر ہمزہ کے ) ہے اور اسی اعتبار کو سامنے رکھ کر ابن کثیر مکی نے اس کو قُرَان پڑھا ہے چنانچہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام پر نازل شدہ کتاب کا نام تورات ہے اور عیسیٰ علیہ السلام پر نازل شدہ کتاب کا نام انجیل ہے اسی طرح جو کتاب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی اس کا نام قرآن مجید ہے۔ ان علماء میں سے اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں، جو کہ قرآن کو اِسم جامد تصور کرتے ہیں۔
٭ علماء کی دوسری جماعت کا کہنا ہے کہ قرآن یہ اسم جامد نہیں اسم مشتق ہے۔
پھر لفظ قرآن کے مشتق ہونے میں علماء کے چار گروہ ہیں۔
٭ علماء کی ایک جماعت، جن میں سے امام اشعری بھی ہیں، کا قول ہے کہ لفظ قرآن قَرِنَتِ الشَّیْئُ بِالشَّیْئِ ( ایک چیز کا دوسری کے ساتھ مل جانا ) سے مشتق ہے چنانچہ قَرْنُ الثَّوْرَیْنِ کا لفظ اس وقت بولاجاتا ہے جب جوئے میں دو بیلوں کو جوتا جائے اور قَرْنُ الْبَعِیْرَیْنِ کا لفظ اس وقت بولاجاتا ہے جب دو اونٹوں کو ایک رسی میں باندھ دیا جائے اور اَقْرَنَتِ الثُّرَیَّا اس وقت بولا جاتا ہے جبکہ بلندی میں ثریا کے ساتھ مخاطب متصل ہو اسی لیے حج و عمرہ کا اکٹھا احرام جب باندھا جائے توا س کو حج قِرَان