کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 114
تعمیر کرتا پھرے اور اسی حالت میں اُٹھایا جائے یا پھر دنیا کے لچر قسم کے کھیل اور ڈراموں یا محفلوں میں مشغول ہو تمھیں موت آجائے تو قیامت کو اسی حالت میں اُٹھو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((مَنْ مَّاتَ عَلٰی شَیْئٍ بَعْثَہٗ اللّٰہُ عَلَیْہِ۔))[1] ’ ’ جو جس چیز پر مرتا ہے اسی پراُٹھایا جائے گا۔‘‘ اور پھر کیا جواب ہوگا اللہ تعالیٰ کے ہاں کہ میں نے تو شراب و کباب کی محفل پہلی ہی مرتب اٹینڈ کی تھی میں نے تو یہ کھیل پہلی ہی مرتبہ کھیلا تھا اس وقت کوئی عذر قبول نہیں ہوگا اس لیے اے میرے مسلمان بھائی ! عمل کر لے دین کی سمجھ حاصل کر لے اگر سمجھ نہ ہوگی تو عمل بھی ممکن نہیں اور دنیا کے فتنوں سے بچ جا بقول شاعر: اِعْمَلْ وَأَنْتَ مِنَ الدُّنْیَا عَلٰی حَذِرِ وَاعْلَمْ بِأَنَّکَ بَعْدَ الْمَوْتِ مَبْعُوْثٌ وَاعْلَمْ بِأَنَّکَ مَا قَدَّمْتَ مِنْ عَمَلٍ مُحْصٰی عَلَیْکَ وَمَا خَلَّفْتَ مُوْرِوْثٗ ’’عمل کر لو اور دنیا سے بچ کر رہنا اور جان لو کہ موت کے بعد تجھے اُٹھایا جائے گا اور یہ بھی جان لو جو عمل تو آگے بھیجے گا اس کا حساب ہوگا اور جو مال و متاع چھوڑ جائے گا وہ تو وراثت بن جائے گی۔ ‘‘ پھر اس مال کے جمع کرنے کا کیا فائدہ جو تیرے کام نہ آسکے اس لیے بچے کی پیدائش اور بندے کی وفات کے وقت دونوں ہاتھوں کے بندھ جانے پر غور کراور عبرت حاصل کرکہ جب بچہ پیدا ہوا ہے اس کے دونوں ہاتھ مقبوض ہوتے ہیں اور جب اس دنیا سے جاتا ہے تو پھر بھی یہی حالت ہوتی ہے جیسا کہ کسی نے پوچھا تو حکیم نے جواب دیا:
[1] الصحیحۃ:283۔