کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 113
شرمندگی کے پس لوگوں کی ملاقات کم کر دے سوائے اس کے کہ اگر علم سیکھنا ہو یا پھر احوال کی اصلاح کرنی ہو۔ ‘‘ لیکن علم و عرفان وحکمت کا علم سیکھنا تو دور اُلٹا طعنے دیتے ہیں کہ کیا سارے لوگ دیندار ہی ہیں ؟ کیا سارے صحابہ رضی اللہ عنہم پڑھے لکھے تھے ؟ تو اس علم کے ساتھ بغض و حسد و عداوت کو سن کر شاعر بول اُٹھا: تُعِیْرُنَا أَنَا قَلِیْلٌ عَدِیْدُنَا فَقُلْتُ لَہٗ إِنَّ الْکِرَامَ قَلِیْلٌ ’’تو ہمیں یہ عار دلاتا ہے کہ ہماری قلت ہے تو یاد رکھ اہل کرم تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔‘‘ لیکن اس کو کیا یہ تو اپنی اداؤں میں مگن ہے آخرت کو بھول کر دنیا کی جمالیات اور زیب و زینت کی حقیقت کے خواب دیکھتا ہے اور کہتا کہ اب ہم مکان بھی نہ بنائیں ؟ تو پھر کیا جنگل میں چلے جائیں ؟ یہ بھی کوئی اسلام نہیں کہ انسان اپنا گھر بھی نہ بنائے اور روزی بھی نہ کمائے تو شاعر نے اس خفیف فکر کو سن کر انتہائی غمگین اور آہستگی سے کہا: یَا بَانِی الدَّارِ الْمُعِدَّ لَہَا مَاذَا عَمِلْتَ لِدَارِکَ الْأُخْرٰی وَمَعْہَدٌ الْفُرُشِ الْوَثِیْرَۃِ لَا تَغْفَلْ فِرَاشَ الرُقْدَۃَ الْکُبْرٰی ’’اے عمارتوں (کوٹھیوں) کو بنانے اور سیدھا کرنے والے اپنے آخری گھر کے بارے تو نے کیا عمل کیا ہے ؟ اور اے قالینوں کے بچھانے والے بڑی نیند (قبر کی نیند) کے قالینوں سے غافل نہ ہو۔‘‘ عمل کر وگے تو وہاں قالین ملیں گے وگرنہ وہ بڑی بھیانک چیز ہے اور دیکھنا کہیں منزلیں بناتا ہی اپنی عاقبت کوجاپہنچے اور ان میں بسیرا کرنے کا موقع ہی نہ ملے اور تو منزلیں