کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 111
اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْن } (التوبۃ: 122) ’’اور مومنوں کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ سب کے سب (جہاد کے لیے ) نکل کھڑے ہوں پس کیوں نہیں ایسا ہوتا کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت دین کی سمجھ بوجھ (فقاہت ) کے لیے جایا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف لوٹیں تو ان کو ڈرایا کریں تاکہ وہ ڈر جائیں۔ ‘‘ تو اس آیت میں بھی فقاہت کے حصول کے لیے قرآن مجید میں تدبر و تفکر و غور وخوض کرنے کے لیے اس کو سمجھنے کے لیے باقاعدہ طور پر جماعت کا تقاضا کیاگیا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو انفرادی اور اجتماعی طور پرقرآن مجید میں تفکر کرتے تھے اور اس کو سمجھاتے تھے چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک دن کہا کہ ذرا مجھے رب کی عبادت کرنے دو تو میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم مجھے آپ کی قربت بڑی اچھی لگتی ہے لیکن جو چیز آپ کوپسند ہو وہ بھی مجھے پیاری لگتی ہے تو کھڑے ہوئے اور وضو کیا پھر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی اتنا روئے کہ ان کی جھولی بھیگ گئی پھر روئے حتیٰ کہ زمین بھیگ گئی تو بلال آئے جب روتے دیکھا تو کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ بھی روتے ہیں آپ کے تو اللہ تعالیٰ نے اگلے پچھلے تمام گناہوں کو معاف کیا ہوا ہے تو فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں اور فرمایا : ((لَقَدْ نَزَلَتْ عَلَیَّ اللَّیْلَۃَ آیَاتٌ وَیْلٌ لِمَنْ قَرَأَہَا وَلَمْ یَتَفَکَّرَ فِیْہَا إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمٰوٰاتِ وَالْأَرْضِ۔)) ’’کہ آج رات میرے اوپر ایسی آیات نازل ہوئی ہیں ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو اس کوپڑھے اورپھر اس میں تفکر و غور و فکر نہ کرے وہ آیات یہ ہیں : {اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ o} (آل عمران: 190) ’’بے شک زمین وآسمان کی تخلیق اور دن رات کے (آگے پیچھے ) اختلاف میں