کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 110
’’تم میں سے جو لوگ دور جاہلیت میں سب سے اچھے تھے وہی اسلام میں بھی سب سے اچھے ہیں بشرطیکہ دین میں فقیہ بن جائیں۔ ‘‘ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کر لیں اور حتیٰ کہ بہترین اسلام کوفقاہت کے ساتھ معلق و مقید کیا اور فرمایا: ((خَیْرُکُمْ إِسْلَامًا أَحْسَانُکُمْ أَخْلَاقًا إِذَا فَقُہُوْا)) [1] ’’تم میں سے بہترین اسلام والا وہ ہے جس کا اخلا ق اچھا ہو اور وہ فقیہ ہو۔ ‘‘ یعنی اسلام کے بعد اچھے اخلاق کے ساتھ جب فقاہت شامل ہوگی اس وقت بہترین اسلام کی صورت واضح ہوگی پھر وہ اخلاق کو چاپلوسی اور مداہنت سے بچائے گا وہ اپنے کے ساتھ نرم اور کافر کے ساتھ گرم ہو کر {أَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِرُحَمَاء بَیْنَہُمْ}کی عملی تفسیر بن جائے گا اور کسی غلط آدمی کی چاپلوسی اور مداہنت کرکے رب تعالیٰ کو ناراض نہیں کرے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِلْمُنَافِقِ یَا سَیِّدِیْ فَقَدْ أَغْضَبَ رَبَّہٗ۔))[2] ’’جب کوئی شخص منافق کویا سیدی (اے میرے سردار) کہہ دے تو گویا اس نے اپنے رب کو غصہ دلایا ہے۔ ‘‘ اس لیے فقہ فی الدین اور حسن تعامل لازم و ملزوم چیز ہیں چنانچہ اسی لیے اللہ جل شانہ نے قرآن مجید میں باقاعدہ اہتمام کے ساتھ ایسی جماعت ایسا گروہ تیار کرنے کو کہا ہے جو صرف قرآن مجید و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فقاہت حاصل کرے اور پھر آگے پہنچائے چنانچہ ارشاد ربانی ہے: { وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا
[1] صحیح الجامع: 3312 والصحیحۃ: 3547۔ [2] صحیح الجامع: 711 والصحیحۃ: 371،1389۔