کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 109
کے بعد دوسری آیات سیکھتا )‘‘ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس دینی فقاہت کی عظمت و اہمیت کو اپنے قول سے یوں سمجھایا : ((فَقِیْہٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلٰی الشَّیْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ۔))[1] ’’فقیہ 1000 عبادت گزاروں سے بڑھ کر شیطان پر بھاری (شدید ) ہوتا ہے۔ ‘‘ اور ساتھ یہ بھی حکم دیا کہ میرے صحابیو! ((إِنَّ النَّاسَ لَکُمْ تَبْعٌ وَإِنَّ رِجَالًا یَأْتُوْنَکُمْ مِّنْ أَقْطَارِ الْأَرْضِ یَتَفَقَّہُوْنَ فِی الدِّیْنِ فَإِذَا أَتَوْکُمْ فَاسْتُوصُوْا بِہِمْ خَیْرًا۔)) [2] ’’لوگ تمھارے تابع ہیں دنیا کے مختلف کونوں سے لوگ تمھارے پاس دین کی فقاہت لینے آئیں گے پس جب وہ آئیں تو ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔(اچھی وصیت کرنا) ‘‘ چنانچہ اسی فہم قرآن و فقاہت قرآن کی اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چیدہ چیدہ صحابہ کو دعا بھی دی جن میں سے ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں تو ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء گئے تو میں نے پانی رکھا تو پوچھنے لگے کس نے رکھا ہے ؟ تو بتلایا گیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تو اس ادب اسلامی اور فقہ اسلامی کو دیکھ کر دعا دی ((اَللّٰہُمَّ فَقِّہْہٗ فِی الدِّیْنِ))[3]’’اے اللہ اس کو دین میں فقیہ بنا ‘‘…تو ان کی دعا کا ہی نتیجہ تھا کہ پوری اُمت محمدیہ کے بڑے ترجمان القرآن ابن عباس رضی اللہ عنہ بنے ‘‘…حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی فقاہت کو اچھائی و بھلائی کا معیار ومناط بنایا چنانچہ فرماتے ہیں : ((خِیَارُکُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ خِیَارُکُمْ فِی الْإِسْلَامِ إِذَا فَقَہُوْا۔))[4]
[1] ابن ماجہ: 222، والترمذی:2681۔ [2] الترمذی: 2650، وابن ماجہ: 249۔ [3] البخاری:143۔ [4] صحیح الجامع: 3267 ومختصر مسلم: 1615۔