کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 108
لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں اور سمجھ دار لوگ نصیحت حاصل کریں۔ ‘‘ تو اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے نزول کا مقصد اعظم ایمان لانے کے بعد اس کو پڑھ کر سمجھنا ہے تاکہ عمل کے مدارج اور جملہ وادیاں طے کی جاسکیں لیکن اگر سمجھے گا ہی نہیں تو پھر عمل کیسے کرے گا ؟ اسی لیے جو لو گ قرآن مجید میں اختلاف کرتے تھے ان کوڈانٹتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : {اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًاo} (النسائ: 82) ’’کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے ؟ اور اگر یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ نہ ہوتا تو اس میں وہ بڑااختلاف پاتے۔ ‘‘ لیکن اختلاف کا نہ ہونا اس کی دلیل ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے اور کسی چیز کے اختلاف کا ادراک بغیر تدبر کے ممکن نہیں۔ اس لیے حقانیت کو پانے کے لیے تدبر کو جزوِلاینفک کی حیثیت دے کر عقل و خرد پر لگے تالے توڑنے کا حکم دیا گیاہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے: {اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَاo} (محمد:24) ’’کیا یہ قرآن پر تدبر نہیں کرتے ؟ یا ان کے دلوں پر قفل (تالے ) لگے ہوئے ہیں۔‘‘ کیسا زجر کا انداز ہے اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول تھا کہ وہ دس آیتیں پڑھتے تو جب تک اس کے معانی نہ سمجھ لیتے آگے نہ بڑھتے جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((کَانَ الرَّجُلُ مِنَّا إِذَا تَعَلَّمَ عَشْرَ آیَاتٍ لَمْ یُجَاوِزْہُنَّ حَتّٰی یَعْرِفَ مَعَانِیَہُنَّ وَالْعَمَلَ بِہِنَّ۔)) [1] ’’ہم سے جو آدمی دس آیتیں سیکھتا تو جب تک اس کے معانی نہ جان لینا اور اس پر عمل نہ کرلیتا آگے نہ بڑھتا۔ ( یعنی ان کو اچھی طرح سمجھتا اور عمل کرتا پھر اس
[1] تفسیر الطبری:1/80 بتحقیق أحمد شاکر، وتحفۃ الأخیار: 5180،5179 والحاکم:1/557۔