کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 96
روایت کیا ہے۔ اہل اداء نے باقی قراء کے لیے بھی اسے اختیار کیا ہے۔ بلکہ عراقی أئمہ نے نصاً و أداء ً تمام قراء سے روایت کیا ہے۔‘‘
دلیل نمبر ۲:
ظہور اسلام اور کتابت مصاحف کے وقت عربی خط اپنے عہد طفولیت میں تھا اور کاتبین مصاحف کتابت میں ماہر نہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس زمانے میں دستیاب قواعد خط کے مطابق مصاحف کو لکھا تھا۔ آج جب خط کے اصول اور کتابت کے قواعد مستحکم ہوچکے ہیں، مصحف کو جدید رسم کے مطابق لکھنے میں کوئی مانع نہیں ہے تاکہ لوگوں پر آسانی کی جا سکے اور مشقت کو دور کیا جا سکے۔[1]
اس دلیل سے منافشہ:
یہ دلیل اس موقف پر قائم ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کتابت مصاحف میں غلطی کی ہے۔ اس دلیل پر رد پہلے ہی گذر چکا ہے۔ جہاں ہم نے واضح کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن مجید کو بالکل صحیح قواعد کے مطابق لکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے متشابہ کلمات کے درمیان فرق کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ﴿أُولٰٓئِکَ﴾ میں واؤ ملحق کی ہے تاکہ اس کے اور ﴿اِلَیْکَ﴾ کے درمیان فرق ہو جائے۔ کیونکہ اس وقت مصاحف نقاط و حرکات سے خالی تھے۔
امام آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ظاہر بات ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسم الخط کے ماہر تھے اور کتابت و عدم کتابت اور وصل وقطع وغیرہ کے تقاضوں کو سمجھتے تھے۔ لیکن انہوں نے حکمت کی بناء پر بعض کلمات میں مخالفت کی ہے۔‘‘[2]
علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[1] مع القرآن الکریم، حیدر قفۃ: ۱۰۳، رسم المصحف للدکتور عبد الحی الفرماوی: ۲۴۴۔ مقدمۃ ابن خلدون: ۲۷۲۔ طبعۃ مصطفی محمد بالقاہرۃ.
[2] تاریخ القرآن و غرائب رسمہ للکردی: ۱۱۷.