کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 95
لہٰذا لوگوں پر کوئی خاص رسم واجب نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ خطوط نشانات اور علامات ہیں جو اشارات، عقود اور رموز کے قائم مقام ہیں۔ ہر رسم کلمہ پر دلالت کرتا ہے، اس کی قراءت کی صحت کا فائدہ دیتا ہے، اسے کاتب نے جس صورت پر بھی لکھا ہو۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ لوگوں کو مخصوص رسم کا پابند کرنے والوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے دعویٰ پر کوئی دلیل پیش کریں، اور دلیل ندارد؟‘‘[1] اس دلیل کا رد مذکورہ دلیل کا درج ذیل امور سے رد کیا گیا ہے: ۱۔ ان کا یہ دعوی کہ قرآن، سنت اجماع اور قیاس سے رسم عثمانی کی توقیفیت پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے، باطل اور مردود ہے، کیونکہ پیچھے مذہب جمہور میں ہم اس پر متعدد دلائل پیش کر آئے ہیں۔ ۲۔ امام باقلانی رحمہ اللہ کے قول کہ ’’چنانچہ یہ جائز امر ہے کہ قرآن مجید کو کوفی حروف اور خط اول کے مطابق لکھا جائے۔‘‘ کا کوئی معنی نہیں ہے اور یہ اس مذہب کے قائلین کو کوئی فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ کوفی حروف ان قواعد سے خارج نہیں ہیں، جن پر مصحف لکھا گیا ہے، چنانچہ محل شاہد کہاں ہے؟ ۳۔ امام باقلانی رحمہ اللہ کا یہ دعوی کہ ’’ہر رسم کلمہ پر دلالت کرتا ہے، اس کی قراءت کی صحت کا فائدہ دیتا ہے اسے کاتب نے جس صورت پر بھی لکھا ہو۔‘‘ اس مذہب کے قائلین کے دعویٰ سے متناقض اور اس کی اساس کو منہدم کرنے والا ہے، کیونکہ قراءت سنت متبعہ ہے اور اس میں توقیف مجمع علیہ أمر ہے۔ قرآن مجید کو کسی بھی رسم اور طریقے پر لکھنے کے جواز کا قول باطل اور امت کے سلف و خلف سے ثابت نقل صحیح اور تلقی کے مخالف ہے۔ اتحاف فضلاء البشر میں مرقوم ہے: ’’اتباع رسم کے وجوب پر ان کا اجماع ہے… کیونکہ اختیاراً و اضطراراً ضرورت اس کا تقاضا کرتی ہے… اور یہ امام نافع رحمہ اللہ ، امام ابو عمرو بصری رحمہ اللہ ، امام عاصم رحمہ اللہ ، امام کسائی رحمہ اللہ ، امام ابو جعفر رحمہ اللہ اور امام خلف رحمہ اللہ سے نصاً ثابت ہے۔ اس طرح امام أہوازی رحمہ اللہ نے امام ابن عامر شامی رحمہ اللہ سے نصاً
[1] الابریز للدباغ: ۵۵، مناھل العرفان: ۱/۳۷۳.