کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 94
کی، اور نہ ہی کاتبین قرآن اور خطاطین مصاحف پر کوئی متعین رسم واجب کیا ہے، کہ اس کے علاوہ کسی دوسرے رسم پر کتابت ناجائز اور حرام ہو۔ رسم عثمانی کے وجوب کا ثبوت یا تو سماع سے ہو سکتا تھا یا توقیف سے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید، سنت رسول، اجماع اور قیاس سے کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی جو قرآن کے رسم اور ضبط کو مخصوص کرتی ہو کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا رسم ناجائز اور حرام ہے۔ بلکہ سنت تو کسی بھی آسان رسم کے جواز پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لکھواتے وقت انہیں رسم کی متعین ہیئت بیان نہیں کرتے تھے، اور نہ ہی کسی کتابت سے منع فرماتے تھے، یہی وجہ ہے کہ مصاحف کے خطوط مختلف ہیں۔ بعض صحابہ کلمہ کو اس کے نطق کے مطابق لکھا کرتے تھے تو بعض اس میں کمی زیادتی کر کے لکھتے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ کمی و زیادتی کے ساتھ کتابت بھی ایک اصطلاح ہے اور لوگ اس طریقے سے واقف ہیں۔ چنانچہ یہ جائز امر ہے کہ قرآن مجید کو کوفی حروف اور خط اول کے مطابق لکھا جائے اور لام کو کاف کی صورت پر لکھا جائے اور الفات کو ٹیڑھا لکھا جائے یا اس کے علاوہ وجوہ پر لکھا جائے۔ یعنی قرآن مجید کو قدیم وجدید دونوں طرح کے خطوط ورسم کے مطابق لکھنا جائز ہے۔‘‘
جب مصاحف کے خطوط اور حروف مختلف اور متغایر الصورۃ ہیں اور لوگوں کو یہ اجازت تھی کہ ہر شخص بلاگناہ اور انکار کے اپنی عادت کے مطابق لکھ لے جو اس کے نزدیک سہل، مشہور اور اولیٰ ہے۔