کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 93
(ج) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا ﴾ (الفرقان:۲۱) یہاں لفظ ﴿ وَعَتَوْ ﴾میں واؤ کے بعد الف محذوف ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ فعل باطل ہے اور اس کے وجود میں کوئی اثر نہیں ہے۔ ۷۔ بعض معانی مختلفہ کی افادیت: رسم عثمانی کے خصائص میں سے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ کلمہ کو دو مختلف مقامات پر دو مختلف طریقوں سے لکھا جاتا ہے تاکہ دونوں مقامات پر دو مختلف معانی پر دلالت کرے۔ جیسے: ﴿أم﴾ کو ﴿من﴾ سے مقطوع اور موصول دونوں طرح لکھا جاتا ہے۔ چنانچہ ﴿ أَمْ مَنْ يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا ﴾ (النساء:۱۰۹) میں ﴿ أَمْ ﴾منقطعہ پر دلالت کرنے کے لیے مقطوع لکھا گیا ہے۔ اس کو ﴿ أَمْ ﴾ منقطعہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس سے پہلی کلام مکمل ہو جاتی ہے اور اس سے نئی کلام شروع ہوتی ہے۔[1] جبکہ ﴿ أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ﴾ (الملک:۲۲) میں موصول لکھا گیا ہے تاکہ اس امر پر دلالت کرے کہ یہ مقطوع نہیں ہے۔ یہی وہ اسرار و رموز ہیں جو عقل سلیم اور روشن دل کے ذریعے رسم عثمانی سے مستنبط ہوتے ہیں اور رسم عثمانی کی بقاء کے وجوب اور اس کی ہر حال میں عدم مخالفت پر دلالت کرتے ہیں۔ [2] دوسرے مذہب کے دلائل: رسم عثمانی کی عدم توقیفیت کے قائلین نے درج ذیل دلائل سے استدلال کیا ہے۔ دلیل نمبر ۱: قرآن و سنت میں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے جو رسم عثمانی کی توقیفیت پر دلالت کرے، اور قرآن مجید کو کسی دوسرے رسم پر لکھنے سے منع کرے۔ امام ابو بکر الباقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کتابت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے امت پر کوئی مخصوص شے واجب نہیں
[1] الصاحبی: ۸۷، طبعۃ دارالکتب العلمیۃ. [2] البرھان للزرکشی: ۱/۳۷۹ وما بعدھا.