کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 92
اس آیت مبارکہ میں لفظ ﴿بِأَیْیِّکُمُ﴾ کو زیادتی یاء کے ساتھ لکھا گیا ہے تاکہ اس امر پر اشارہ کرے کہ مشرکین کا جنون انتہائی درجہ اور حدود کو تجاوز کیے ہوئے تھا۔ (د) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ تَاللّٰهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ ﴾ (یوسف:۸۵) یہاں لفظ ﴿ تَفْتَأُ ﴾میں ہمزہ کو واؤ پر لکھا گیا ہے اور اس کے بعد الف زائد کیا گیا ہے تاکہ اس امر پر دلالت کرے کہ سیدنا یعقوب علیہ السلام سیدنا یوسف کو بہت زیادہ یاد کیا کرتے تھے۔ (ہ) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى ﴾ (طٰہٰ:۱۱۹) یہاں لفظ ﴿ لَا تَظْمَأُ ﴾میں الف زائدہ ہے جو جنتیوں کے لیے سیرابی کے استمرار اور عدم پیاس پر دلالت کرتا ہے۔ (و) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ ﴾ (الشوریٰ:۳۰) یہاں لفظ ﴿یَعْفُواْ﴾ میں الف زائدہ ہے جو اللہ کی عفو و درگذر کی کثرت اور استمرار پر دلالت کرتا ہے۔ (ز) بعض مقام پر الف کو مخصوص معانی پر دلالت کرنے کے لیے حذف کردیا جاتا ہے۔ جیسے: ﴿ وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ ﴾ (سباء:۵) میں لفظ ﴿ سَعَوْا ﴾ کا الف محذوف ہے، جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی سعی باطل میں ہے، جس کا کوئی صحیح وجود نہیں ہے اور وہ اس سے کچھ حاصل نہ کر سکیں گے۔ اسی طرح ﴿ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ ﴾ (الاعراف: ۱۱۶)،﴿ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا ﴾ (الفرقان:۴) ، ﴿ وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ ﴾ (یوسف:۱۶) اور ﴿ وَجَاءُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ﴾یوسف:۱۸) ان تمام کلمات میں لفظ ﴿جَآئُ وٓ﴾ کے آخر سے الف محذوف ہے۔ جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ان کا آنا صحیح وجہ پر نہیں تھا۔بلکہ اس پر کذب اور جھوٹ غالب تھا۔