کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 91
میں امالہ کرنے والے امالہ کرتے ہیں جیسے: ﴿والضحی، فھدی، التقوی، یغشی﴾ اور اگر اس کی اصل واؤ ہو تو اسے الف سے لکھا جاتا ہے تاکہ عدم امالہ پر دلالت کرے جیسے: ﴿الصفا، عفا، خلا، دعا، دنا﴾ ۶۔ بعض دقیق معانی پر دلالت: رسم عثمانی کے امتیازات میں سے ایک امتیاز ایسے خفی اور دقیق معانی پر دلالت کرنا ہے، جو انتہائی غوروخوض یا نصرت الٰہی کے بغیر سمجھ نہیں آتے۔ دقیق معانی پر دلالت کی چند مثالیں درج ذیل ہیں: (أ) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ﴾ (الذاریات:۴۷) اس آیت مبارکہ میں لفظ ﴿ بِأَيْيدٍ ﴾کو دو یاؤں کے ساتھ لکھا گیا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق سموت کی عظیم قدرت پر اشارہ ہو سکے۔ اس قوت کے مشابہ کوئی قوت نہیں ہے۔ یہاں اس مشہور قاعدہ پر عمل کیا گیا ہے کہ ((زیادۃ المبنی تدل علی زیادۃ المعنی)) کلمہ کی بنا ء کی زیادتی، معنی کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے۔ (ب) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ ﴾ (الزمر:۶۹) اور ﴿ وَجِيءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ ﴾ (الفجر:۲۳) ان دونوں مقامات پر لفظ ﴿ وَجِيءَ ﴾ کو زیادتی الف کے ساتھ لکھا گیا ہے تاکہ تفخیم، تہویل، و عید اور تہدید پر دلالت کرے۔ (ج) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ بِأَيِّكُمُ الْمَفْتُونُ ﴾ (القلم:۶)