کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 90
۳۔ اتصال سند:
رسم عثمانی کے خصائص میں سے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک اتصال سند کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ اگر قرآن مجید رسم قیاسی کے مطابق مکتوب ہوتا تو لوگ مشائخ سے تلقی و مشافہت کے طریقے سے مستغنی ہو جاتے اور مصاحف سے خود ہی قراءت پڑھنے پر اکتفاء کر لیتے۔ نتیجۃً مد، قصر، ادغام و اظہار، تحقیق و تسہیل، فتح و امالہ، تغلیظ و ترقیق، اور اشمام، روم وغیرہ جیسے متعدد طرق ادا کی معرفت سے محروم رہ جاتے۔ جن کا حصول تلقی ومشافہت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور کوئی بھی شخص معلم سے سیکھے بغیر ﴿کھیعص﴾ ، ﴿حم، عسق﴾ ، ﴿طسم﴾ ، ﴿یس﴾ جیسے حروف مقطعات کا صحیح نطق نہ کر سکتا۔ اتصال سند کا یہ امتیاز صرف امت محمدیہ کو حاصل ہے، خصوصاً تلاوت قرآن مجید میں۔ [1]
۴۔ أصل حرکت پر دلالت:
جیسا کہ پہلے بھی معلوم ہو چکا ہے کہ مصاحف عثمانیہ نقط و حرکات سے خالی تھے۔ چنانچہ بعض حرکات پر دلالت کرنے کے لیے حروف کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے۔ جیسے:
﴿ مِنْ نَبَإِ الْمُرْسَلِينَ ﴾ (الانعام:۳۴) میں ہمزہ کے بعد یاء کی زیادتی کسرہ پر دلالت کرتی ہے۔
﴿ سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ ﴾ (الاعراف:۱۴۵) میں واؤ کی زیادتی ہمزہ مضمومہ پر دلالت کرتی ہے۔
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ﴿ سَأُرِيكُمْ ﴾میں الف زائدہ ہے اور واؤ ہمزہ کی صورت ہے۔ [2]
۵۔ أصل حرف پر دلالت:
جیسے لفظ ﴿الصلاۃ، الزکاۃ، الحیاۃ، الربا﴾ کو الف کی بجائے واؤ کے ساتھ لکھنا، یا الف کو یاء کے ساتھ لکھنا، اس امر پر دلالت کرنے کے لیے کہ اس کی أصل یاء ہے اس
[1] تدریب الراوی للسیوطی: ۲/۱۶۰.
[2] النشر: ۱/۴۵۶۔ ۴۶۰.