کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 87
وحی الٰہی ہے، اس میں جو کچھ موجود ہے وہ سب برحق ہے۔ جس شخص نے جان بوجھ کر اس میں سے کوئی حرف کم کر دیا، یا ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف بدل دیا، یا مجمع علیہ مصحف پر کوئی حرف زیادہ کر دیا، تو وہ کافر ہے۔‘‘[1]
امام جعبری رحمہ اللہ وغیرہ نے مصحف عثمانی کے رسم کی اتباع کے وجوب پر أئمہ أربعہ کا اجماع نقل کیا ہے۔[2]
شرح طحاوی میں مکتوب ہے کہ
’’جو شخص قرآن مجید لکھنا چاہتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ کلمات کو اس انداز سے منظم کرے جس طرح مصحف عثمان میں ہے، کیونکہ اس پر امت کا اجماع ہے۔‘‘[3]
امام زمحشری رحمہ اللہ آیت مبارکہ ﴿ وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ ﴾ (الفرقان:۷) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ، مصحف میں لام ﴿ هَذَا ﴾سے کاٹ کر لکھا ہوا ہے، جو خط عربی کے قواعد سے خارج ہے، اور مصحف کا خط سنت ہے، جس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔‘‘
شعب الایمان للبیہقی میں مرقوم ہے:
’’جو شخص مصحف لکھے، اسے چاہیے کہ وہ ان حروف ھجاء کی حفاظت کرے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مصاحف عثمانیہ میں لکھے تھے اور ان کی مخالفت نہ کرے اور نہ ہی کسی شیء کو تبدیل کرے۔ بے شک وہ لوگ ہم سے زیادہ عالم، دل و زبان کے سچے اور امانت دار تھے۔ لہٰذا ہمیں ان کا استدراک کرنے کی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘[4]
۴۔ قواعد املائیہ محل تغییر ہیں، جو ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے تک اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک جاتے ہوئے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر مصاحف کو رسم قیاسی اور جدید قواعد املائیہ کے مطابق لکھا جاتا تو تمام مصاحف ایک دوسرے سے مختلف ہوتے
[1] الشفاء للقاضی عیاض: ۲/۳۰۵.
[2] سمیر الطالبین للشیخ الضباع: ۱۹.
[3] سمیر الطالبین: ۲۰.
[4] شعب الایمان فصل فی تنویر موضع القرآن: ۲/۵۴۸۔ تحقیق أبی ہاجر محمد السعید بن بسیونی زغلول ط: دارالکتب العلمیۃ.