کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 84
وہ چیز جس پر اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ہے، یہ ہے کہ قرآن مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھا گیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے اسی کتابت کے مطابق ثابت رکھا۔ یہ گویا تقریری سنت ہے۔ اور تقریری سنت تمام محدثین و أصولین کے نزدیک قابل حجت ہے۔ اگر کتابت میں کوئی خطا ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس پر ثابت نہ رکھتے۔ کیونکہ کتابت کی غلطی وعدہ حفاظت الٰہی: ﴿ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴾کے صریح مخالف ہے۔
صاحب کتاب الابریز اپنے شیخ عبد العزیز الدباغ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’رسم قرآن، مشاہدہ اور کمال رفعت کے اسرار و رموز میں سے ایک راز ہے۔ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوا ہے۔ رسم قرآن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا دیگر اہل علم کا کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے توقیفاً ثابت ہے۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نقص وزیادت کی اس معروف ہیئت پر لکھنے کا حکم دیا تھا۔ اس معروف ہیئت میں متعدد اسرار و رموز پوشیدہ ہیں، جن تک نصرت الٰہی کے بغیر عقول نہیں پہنچ سکتیں۔ اللہ تعالیٰ نے دیگر کتب سماویہ کو چھوڑ کر قرآن مجید کو ان اسرار کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے۔ جس طرح قرآن مجید کا نظم معجزہ ہے، اسی طرح اس کا رسم بھی معجزہ ہے۔‘‘[1]
۲۔ فعل صحابہ:
رسم عثمانی کے توقیفی ہونے پر دوسری دلیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فعل ہے۔ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ جب سیدنا أبو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے اور انہوں نے جمع قرآن کا حکم دیا، تو انہوں نے قرآن مجید کو اس ہیئت کتابت پر لکھوایا، جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں لکھا گیا تھا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لکھے گئے صحف سے مصاحف تیار کروائے۔ اور ان مصاحف کا رسم صحف صدیقی کے موافق تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفاء راشدین کی اقتداء اور ان کے فعل کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے۔
[1] الابریز للشیخ عبد العزیز بن مسعود الدباغ: ۶۰.