کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 83
الرحیم کو خوبصورت لکھو۔‘‘ قاضی عیاض رحمہ اللہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ((وَھٰذَا وَإِنْ لَّمْ تَصِحِّ الرِّوَایَۃُ أَنَّہُ کَتَبَ، فَلَا یَبْعُدُ أَنْ یُرْزَقَ عِلْمُ ھٰذَا وَیُمْنَعَ الْقِرَآئَ ۃُ وَالْکِتَابَۃُ)) [1] ’’اگرچہ آپ کے لکھنے کی یہ روایت صحیح نہیں ہے، لیکن یہ بھی کوئی بعید نہیں ہے کہ آپ کو اس کا علم عطا کر دیا گیا ہو، اور قراء ۃ و کتابت سے منع کر دیا گیا ہو۔‘‘ شیخ محمد حسنین مخلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہ روایت اس قول کے منافی نہیں ہے کہ آپ امی تھے اور آپ نے کتابت نہیں سیکھی تھی، کیونکہ اس صورت پر املاء بالتلقین کروانے سے کتابت جاننا لازم نہیں آتا۔ کیونکہ پہلی چیز (یعنی املاء) وحی اور محض حروف کتابت کی خبر دینا ہے، جبکہ دوسری چیز کسبی اور ہاتھ کا ہنر ہے، جیسا کہ ہم میں سے ہر شخص ابتداء ً کتابت سیکھتا ہے، پھر پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ آپ نے نہ تو کتابت سیکھی ہے اور نہ کتابت کی ہے، تاکہ آپ کے بارے میں یہ وہم نہ ہو کہ آپ نے خود قرآن مجید تصنیف کیا ہے۔ اس سے آپ کا معاملہ مشکوک ہو جاتا۔‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ ﴾ (العنکبوت:۴۸) ’’اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے، اور نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے کہ یہ باطل پرست لوگ شک و شبہ میں پڑتے۔‘‘ کتابت آپ سے کسی صورت میں بھی واقع نہیں ہوئی، نہ وحی سے نہ تعلیم سے اور نہ ہی کسی دوسرے ذریعے سے، جیسے سلیقہ عربی سے شعر پیدا ہوتا ہے۔ [2]
[1] تفسیر القرطبی: ۱۳/۳۵۳. [2] عنوان البیان فی علوم التبیان: ۴۳.