کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 78
مشہور نحوی ابو حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا أبان بن عثمان رضی اللہ عنہ سے جو یہ منقول ہے کہ اس کلمہ کی کتابت بالیاء کاتب کی غلطی ہے، ان دونوں کی طرف اس قول کی نسبت صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ یہ دونوں فصیح عربی دان تھے اورلغت عرب میں اس کتابت بالیاء والی وجہ کا ایک وسیع باب ہے، اس پر امام سیبویہ نے متعدد شواہد پیش کیے ہیں۔‘‘[1]
امام زمحشری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ وہم ناقابل التفات ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے خط مصحف میں لحن واقع ہوئی ہے۔ اس وہم کی طرف صرف وہی شخص متوجہ ہو سکتا ہے جو امام سیبویہ کی کتاب، اور مذاہب عرب سے ناواقف ہے، اور صحابہ کرام، جن کی مثالیں توراۃ و انجیل میں بیان ہوئی ہیں، ان کے علم و فضل سے جاہل ہے۔ وہ دفاع اسلام کے حوالے سے سب سے بڑھ کر باہمت اور غیرت مند تھے۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ کتاب الٰہی میں کوئی ایسا نقص چھوڑ دیں جسے بعد والے آکر درست کریں۔‘‘[2]
۴۔ ﴿وَالصَّابِؤنَ﴾ مکتوب بالواؤ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کچھ بھی منقول نہیں ہے کہ آپ نے واؤ کی قراءت پڑھنے والوں کو غلط کہا ہو یا بذات خود واؤ کی بجائے یاء کے ساتھ پڑھا ہو۔ لہٰذا عقلاً یہ بات سمجھ آتی ہے کہ انہوں نے کتابت بالواؤ کو بھی غلط قرار نہیں دیا ہو گا۔[3]
قراء عشرہ ﴿وَالْمُقِیْمِیْنَ الصَّلَاۃَ﴾ کو یاء کے ساتھ اور ﴿وَالصَّابِؤنَ﴾ کو واؤ کے ساتھ
[1] البحر المحیط: ۳/۳۹۶، ۳۹۷.
[2] الکشاف: ۱/۵۹۰.
[3] مناہل العرفان: ۱/۳۸۶، ۳۸۷، کتاب المصاحف: ۱/۲۴۰.