کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 77
((أُبَیٌّ أَقْرُؤُنَا، وَاِنَّا لَنَدَعُ بَعْضَ لَحْنِہٖ۔ یَعْنِیْ قِرَآئَ تَہُ)) [1]
’’سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہم میں سے سب سے بڑے قاری ہیں، اس کے باوجود ہم ان کی بعض قراء ات کو چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘
شیخ زرقانی رحمہ اللہ ان آثار کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہمارا جواب یہ ہے کہ
۱۔ اگر ان آثار کی سند صحیح ہو تو بھی یہ خبر متواتر اور حفاظت الٰہی کے حکم قطعی کے ساتھ متعارض ہیں، اور حکم قطعی سے متعارض ہر خبر ساقط اور مردود ہوتی ہے، لہٰذا یہ آثار ناقابل التفات اور ناقابل عمل ہیں۔
۲۔ اتحاف فضلاء البشر میں مرقوم ہے کہ لفظ ﴿ھَذَانِ﴾ مصاحف میں الف اور یاء کے بغیر مرسوم ہے تاکہ اس سے چاروں قراء ات پڑھی جا سکیں… عقلاً یہاں یہ نہیں کہا جائے گا کہ کاتب نے غلطی کی ہے اور الف اور یاء نہیں لکھی۔ اگر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف کے مطابق یہاں کوئی غلطی ہوتی تو آپ اسے کاتب کی طرف منسوب کرنے کی بجائے تشدید ﴿اِنَّ﴾ اور الف ﴿ھذان﴾ کے ساتھ پڑھنے والوں کی طرف منسوب کرتیں۔ حالانکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا وغیرہ سے ایسا کچھ بھی منقول نہیں ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس قراءت کا انکار بھی کیسے کر سکتی تھیں، کیونکہ یہ قراءت، قراءت متواترہ اور مجمع علیھا ہے، اور اکثر قراء کرام کی قراءت ہے اور عربی میں فصیح وجہ ہے کہ مثنی کو ہر حالت میں الف کے ساتھ پڑھا جائے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ امر مخفی نہیں تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے اس قراءت کا انکار کرنا بعید از قیاس ہے۔ اگرچہ اسے رسم مصحف میں صرف ایک قراءت کے مطابق لکھا گیا ہے۔[2]
۳۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف جو یہ دعویٰ منسوب ہے کہ انہوں نے ﴿وَالْمُقِیْمِیْنَ الصَّلَاۃَ﴾ مکتوب بالیاء میں مصحف کے رسم کو غلط قرار دیا ہے۔ یہ دعویٰ باطل اور مردود ہے۔
[1] المقنع: ۱۲۲.
[2] اتحاف: ۱/۲۴۹.