کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 76
کیا تھا جو اللہ تعالیٰ نے امت کی آسانی کے لیے نازل فرمائے تھے۔ چنانچہ انہوں نے قیاس عرب میں واضح اور لغت میں مشہورشے کو لحن، خطا اور وہم کا ایک منفرد عنوان دیا ہے۔ لہٰذا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصود، مرسوم کے معنی میں داخل نہیں ہے۔ اس کو اخبار میں وسعت کی جہت اور عبارت میں بطریق مجاز سیدہ عروۃ رضی اللہ عنہ نے لحن اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خطاء کا نام دیا ہے، کیونکہ یہ ان دونوں کے مذہب کے مخالف اور ان کے اختیار سے خارج تھا اور یہ فقط ان دونوں کے نزدیک ہی أرجح وأولیٰ اور مشہور تھا، نہ کہ حقیقت میں۔ قطعی بات وہی ہے جو ہم نے پہلے بیان کی ہے کہ وہ لغت میں مشہور اور قیاس میں معروف ہے، اور اس کی تلاوت پر اجماع منعقد ہے، برخلاف ان دونوں کے مذہب کے۔‘‘[1] امام دانی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی عظمت شان، جلالت قدر، وسعت علمی اور معرفت لغت کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لحن اور کاتبین مصاحف کو خطا کا مرتکب قرار دیا ہے۔ حالانکہ فصاحت و بلاغت اور معرفت لغت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام و مرتبہ اور پایہ ایسا نہیں ہے، جس کا انکار کیا جا سکے۔ ایسے مقام پر ایسا حکم لگانا نامناسب اور ناجائز ہے۔‘‘ بعض أہل علم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول((أَخْطَاؤُا فِی الْکِتَابِ)) کی یہ تاویل کی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو أحرف سبعہ پر جمع کرنے کے حوالے سے اختیار أولی میں خطا کی ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ جو رسم انہوں نے لکھا ہے اس رسم میں ایسی خطا ہے جو ناجائز ہے۔ کیونکہ ہر ناجائز بالاجماع مردود ہے۔ اگرچہ اس کے وقوع کی مدت طویل اور قدر عظیم ہی کیوں نہ ہو گئی ہو۔ وہ لحن کی تاویل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے مراد قراءت اور لغت ہے۔ جیسا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کا قول ہے:
[1] المقنع: ۱۲۱.