کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 75
ہے، اور سننے والے کو غلطی محسوس ہو گی، اگرچہ اس کا یہ رسم جائز ہے۔
جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اس امر پر مطلع ہوئے تو فرمایا کہ بعد میں آنے والوں میں سے جن کی تمیز اور معرفت مفقود ہو چکی ہو گی وہ اسے عرب سے اخذ کر لیں گے۔ کیونکہ قرآن مجید ان کی لغت میں نازل ہوا ہے۔ وہ انہیں تلاوت کی حقیقت سے متعارف کروا دیں گے اور اس کے صحیح رسم کی پہچان کروا دیں گے۔ میرے نزدیک تو یہ وجہ ہے۔ واللہ اعلم۔‘‘[1]
امام دانی رحمہ اللہ کے اس قول کی تائید امام طبرانی رحمہ اللہ اور امام بیہقی رحمہ اللہ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِقْرَأُوْا الْقُرْآنَ بِلُحُوْنِ الْعَرَبِ وَأَصْوَاتِھَا)) [2]
’’قرآن مجید کو عربوں کے لب و لہجہ کے مطابق پڑھو۔‘‘
ان آثار میں وارد لفظ لحن سے مراد ان حروف اور نقص و زیادت کے ساتھ مرسوم کلمات کی تلاوت ہے، جو رسم قیاسی کے قواعد کے مخالف ہیں۔ اگر ان کلمات کو رسم کے مطابق پڑھا جائے تو لفظ بدل جاتا ہے اور معنی بگڑ جاتا ہے۔[3]
اگر اس سے مراد غلطی ہی لی جائے تو پھر یہ آپ کے قول ((أَحْسَنْتُمْ وَأَجْمَلْتُمْ)) ’’تم نے بہت حسین و جمیل کام کیا ہے۔‘‘ کے ساتھ کیسے متفق ہو گا۔[4]
یہ واضح تناقص ہے جو آپ رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبے اور شان کے لائق نہیں ہے۔
(ب) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی أثر کا جواب دیتے ہوئے امام دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس کی تاویل ظاہر ہے کہ سیدنا عروۃ رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسم کے حروف کے بارے میں سوال نہیں کیا تھا، جو بیان کی تاکید اور آسانی کے لیے مختلف معانی پر دلالت کرنے کے لیے کلمہ میں ناقص یا زیادہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے مختلف قراء ات اور متعدد وجوہ کا احتمال رکھنے والے حروف سے متعلق سوا ل
[1] المقنع: ۱۲۴، ۱۲۵.
[2] فیض القدیر:۲-۶۵.
[3] النشر: ۱/۴۵۸.
[4] النشر:۱/۴۵۸.