کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 73
اس کلمہ کو تینوں جگہوں پر ایک ہی رسم کے ساتھ لکھا گیا ہے، یعنی میم کے بعد حذف الف کے ساتھ۔ لیکن قراء کرام نے صرف سورۃ الفاتحہ والے کلمہ میں اختلاف کیا ہے۔ جسے بعض نے بحذف الف اور بعض نے باثبات الف پڑھا ہے۔ سورۃ آل عمران والے کلمہ کو تمام قراء کرام نے بالاتفاق اثبات الف کے ساتھ پڑھا ہے۔ باوجویکہ اس کی کتابت میں الف محذوف ہے۔ اگر اس کو حذف الف کے ساتھ پڑھا جاتا تو لغۃًو معنی ً دونوں اعتبار سے مناسب ہوتا۔ لیکن چونکہ یہاں روایت و نقل سے حذف الف ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا کسی نے بھی اس کو حذف الف کے ساتھ نہیں پڑھا۔ سورۃ الناس والے کلمہ کو تمام قراء کرام نے بالاتفاق حذف الف کے ساتھ پڑھا ہے۔ اگر اس کو اثبات الف سے پڑھا جاتا تو لغۃ و معنی ً دونوں اعتبار سے درست و مناسب ہوتا۔ لیکن اس کو اثبات الف سے کسی نے بھی نہیں پڑھا ہے، کیونکہ نقل وروایت سے اثبات الف ثابت نہیں ہے۔ اگر قراء ات قرآنیہ تلقی و توقیف کے بجائے اجتہاد و رائے پر موقوف ہوتیں، اور ان کے اختلاف کا تنوع رسم کے تابع ہوتا، تو قراء کرام صرف سورۃ الفاتحہ والے کلمہ میں اختلاف نہ کرتے، بلکہ باقی دونوں کلمات کو بھی اس کے ساتھ ملحق کر لیتے۔ لیکن انہوں نے صرف سورۃ الفاتحہ میں اختلاف کیا ہے، جبکہ باقی دو جگہ سورۃ آل عمران اور سورۃ الناس میں اتفاق سے پڑھا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قراء ات قرآنیہ اجتہاد و رائے پر موقوف نہیں ہیں اور ان کا تنوع رسم کے تابع نہیں ہے، بلکہ سند، روایت اور نقل کے تابع ہے۔[1] ۳۔ یہ دعویٰ اس لیے بھی باطل ہے کہ اس کی صحت کو صحیح تسلیم کر لینے سے قرآن مجید میں تحریف لازم آتی ہے۔ جو وعدہ الٰہی کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: ﴿ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴾ (الحجر:۹) ’’یہ ذکر ہم نے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
[1] القراء ات فی نظر المستشرقین والملحدین: ۵۲، ۵۳.