کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 72
کہ قراء ات کا اختلاف رسم کا نتیجہ ہے، بالکل باطل اور بے بنیاد ہے۔ یہ ملحدوں اور اسلام دشمنوں کی شرپسندی ہے جو قرآن مجید میں شکوک و شبہات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ اس کی حفاظت کا بیڑا خود باری تعالیٰ نے اٹھا رکھا ہے۔ اہل علم نے اس جھوٹے دعوے کا دلائل کے ساتھ تیا پانچہ کر دیا ہے، اور اب اس کے جھوٹا ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مصاحف کو اس طریقہ کتابت کے مطابق لکھا تھا، جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیا تھا۔ نیز یہ بات یاد رہے کہ قراء ات قرآنیہ رسم قرآن کے تابع نہیں ہیں۔ اس دعویٰ کی تردید پر لکھے گئے رسائل میں سے ایک اہم ترین رسالہ ہمارے شیخ محترم شیخ عبد الفتاح عبد الغنی رحمہ اللہ (ت۱۴۰۳ھ) کا ہے۔ جو ((القراء ات فی نظرالمستشرقین والملحدین)) کے نام سے مجمع البحوث الاسلامیۃ بالأزھر عام ۱۳۹۲ھـ…۱۹۷۲ء کے زیر اہتمام چھپ چکا ہے۔ شیخ عبد الفتاح القاضی رحمہ اللہ اپنے اس رسالہ میں رقم طراز ہیں: ’’قرآن مجید میں بعض کلمات مکرر آئے ہیں اور انہیں تمام مقامات پر ایک ہی رسم کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ اگرچہ بعض مقامات پر ان میں دو یا دو سے زائد قراء ات پائی جاتی ہیں، جن کا رسم احتمال رکھتا ہے اور بعض مقامات پر تمام قراء کرام ایک قراءت پر متفق ہیں۔ کیونکہ وہاں روایت و نقل سے کوئی دوسری قراءت ثابت نہیں ہے، اگرچہ رسم اس کا احتمال رکھتا ہے۔‘‘ مثلا کلمہ ﴿ مٰلِكِ ﴾قرآن مجید میں صفت یا حکم صفت میں تین جگہ واقع ہوا ہے۔ ٭ ﴿ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴾ (الفاتحہ:۴) ٭ ﴿ قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ ﴾ (آل عمران:۲۶) ٭ ﴿ مَلِكِ النَّاسِ ﴾ (الناس:۲)