کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 71
مشہور مستشرق گولڈ زیہر اپنی کتاب ((مذاہب التفسیر الاسلامی)) میں لکھتا ہے:
((فَلَا یُوْجَدُ کِتَابُ تَشرِیْعٍ اعْتَرَفَتْ بِہٖ طَآئِفَۃٌ دِیْنِیَّۃٌ اعْتِرَافًا عَقْدِیًّا، عَلیٰ أَنّہُ نَصٌّ مُنَزَلٌ مُوْحیٰ بِہٖ، یَقْدُمُ نَصُّہُ فِیْ أَقْدَمِ عُصُوْرٍ تَدَاوُلُہُ مِثْلَ ھٰذِہِ الصُّوْرَۃِ مِنْ الْاِضْطِرَابِ وَعَدَمِ الثُّبَاتِ، کَمَا نَجِدُ فِیْ نَصِّ الْقُرْآنِ)) [1]
’’ایسی کوئی شرعی کتاب نہیں پائی جاتی، جس کے بارے میں مذہبی جماعت نے بطور عقیدہ یہ اعتراف کیا ہو کہ وہ نص منزل من اللہ اور وحی کردہ ہے، اور اس کی نص پرانے زمانے سے اس اضطراب اور عدم ثبات کی اس صورت میں متداول آ رہی ہو، جیسا کہ ہم نص قرآنی میں پاتے ہیں۔‘‘
پھر اختلافات قراء ات کا سبب بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’ان اختلافات کا ایک بڑا سبب خط عربی کی وہ مخصوص ہیئت ہے، جس سے مختلف صوتی مقداریں سامنے آتی ہیں، جو اس مخصوص شکل کے اوپر یا نیچے لگائے گئے مختلف تعداد میں نقاط سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر کسی جگہ نقاط کی صوتی مقداریں مساوی ہو جائیں تو حرکات کے اختلاف کا تقاضا کرتی ہیں۔ جو درحقیقت عربی کتابت میں موجود نہیں ہیں، جو ان مقداروں کی تحدید کریں اور کلمہ کے اعراب کے مواقع پر دلالت کریں۔‘‘
جب اس مخصوص ہیکل پر نقاط و حرکات لگائے گئے تو أصل خط کے غیر منقوط ہونے اور نقاط و حرکات لگاتے وقت، دقت نظر کے نہ ہونے کی بنیاد پر اختلاف قراءت سامنے آیا۔[2]
ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ قراء ات قرآنیہ رسم قرآن سے پہلے ہی موجود تھیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسانید صحیحہ کے ساتھ براہ راست حاصل کی جاتی تھیں… لہٰذا یہ دعویٰ کرنا
[1] مذاہب التفسیر الاسلامی، ترجمۃ الدکتور عبد الحلیم النجار: ۴.
[2] مذاہب التفسیر الاسلامی ترجمۃ الدکتور عبد الحلیم النجار: ۸.