کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 70
پہلی قراءت:… ﴿ لئَيْكَةِ ﴾ بدون الف، بفتح اللام، بدون ہمزہ بعد اللام اور غیر منصرف ہونے کی بنا پر تائے تانیث پر فتح، یہ نافع، مکی، شامی اور ابو جعفر کی قراءت ہے۔
دوسری قراءت:… ﴿ الْأَيْكَةِ ﴾، ألام سے پہلے ہمزہ وصلی، لام کے سکون اور اس کے بعد ہمزہ مفتوحہ اور تائے تانیث کے کسرہ سے، یہ باقی تمام قراء کرام کی قراءت ہے اور یہ دونوں قراء ات ہی صحیح اور متواتر ہیں۔
جبکہ سورۃ الحجر اور سورۃ ق میں صرف ایک ہی قراءت پائی جاتی ہے، لہٰذا ان دونوں مقامات پر اس کلمہ کو ﴿ أَلْأَيْكَةِ ﴾ہمزہ وصلی، سکون لام، ہمزہ مفتوح بعد اللام اور کسرہ تاء سے پڑھا گیا ہے۔[1]
مذکورہ مثال سے مستنبط نتائج:
مذکورہ مثال سے درج ذیل دو نتائج مستنبط ہوتے ہیں:
پہلا نتیجہ:… صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کلمات کو دقیق قواعد و ضوابط کے مطابق لکھا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دین اور اپنی کتاب کی حفاظت کے لیے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منتخب فرما لیا ہے۔ لہٰذا ان کی طرف اس جیسے عظیم الشان کام میں غلطی اور خطا کی نسبت کرنا درست نہیں ہے۔
دوسرا نتیجہ:… قراءت سنت متبعہ ہے، اس میں اجتہاد و قیاس کو کوئی دخل نہیں ہے۔ ورنہ مثال مذکورہ میں کلمہ ﴿ أَلْأَيْكَةِ ﴾ میں بعض جگہ دو قراءتیں اور بعض جگہ ایک قرائت نہ پڑھی جاتی۔ تمام جگہ یا تو ایک ہی قراءت ہوتی یا پھر دو ہوتیں۔
نیز اس کلمہ میں بدون ہمزہ وصلی ﴿ لئَيْكَةِ ﴾ والی قراءت کے بارے میں جو یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ رسم سے مستنبط ہے، مردود ہے۔ کیونکہ یہ امر مسلمہ ہے کہ قراءت، کتابت سے مقدم ہے۔
رسم سے قراء ات قرآنیہ کے استنباط کا نظریہ، کہ مصاحف عثمانیہ چونکہ نقاط و حرکات سے خالی تھے اور بعض کلمات کو ایک مخصوص طریقہ کے مطابق لکھا گیا تھا، جس کے سبب قراء ات کا اختلاف پیدا ہو گیا، ایک الحادی نظریہ ہے۔ جو بعض مستشرقین کی جانب سے شریعت کے مصدر اول قرآن مجید کی صحت میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے۔
[1] اتحاف فضلاء والبشر: ۲/۳۱۹.