کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 69
پائیں اور تمہارے بڑے اس سے مدافعت کریں۔‘‘ یعنی مصاحف کو نُقَط، فواتح اور أعشار وغیرہ سے خالی رکھو تاکہ تمہارے بچے یہ نہ سمجھیں کہ یہ بھی قرآن کا حصہ ہیں۔ مذکورہ دلائل کی روشنی میں امام ابن خلدون کا دعویٰ باطل ہو جاتا ہے کہ ابتداء اسلام میں عربی خط، اتقان وجودت کے اعلیٰ معیار پر فائز نہیں تھا۔ ۲۔ سابقہ دلائل کو بنظر غائر پڑھنے والا شخص اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مصاحف کی کتابت انتہائی دقت نظر کے ساتھ فرمائی ہے، اور اگر انہوں نے کسی جگہ حروف کو نطق سے کم یا زیادہ لکھا ہے تو ان أسرار و حکم کی بنیا د پر لکھا ہے جو پہلے بیان کیے جا چکے ہیں۔ نیز انہوں نے اگر ایک ہی کلمہ کو مختلف مقامات پر مختلف صورتوں کے ساتھ لکھا ہے تو اس کی وجہ اس کلمہ میں قراء ات قراء نیہ کا اختلاف ہے۔ مثلاً: ایک کلمہ ﴿الأیکۃ﴾ قرآن مجید میں چار مقامات پر آیا ہے۔ پہلا:﴿ وَإِنْ كَانَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ لَظَالِمِينَ ﴾ (الحجر:۷۸) دوسرا:﴿ كَذَّبَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ الْمُرْسَلِينَ ﴾ (الشعراء:۱۷۶) تیسرا:﴿ وَثَمُودُ وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ ﴾ (ص:۱۳) چوتھا:﴿ وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ﴾ (ق:۱۴) مذکورہ کلمہ کو سورۃ الشعراء اور سورہ ص میں بدون الف قبل اللام ﴿ لئَيْكَةِ ﴾ اور سورۃ الحجر اور سورۃ ق میں بالالف قبل اللام ﴿ الْأَيْكَةِ ﴾لکھا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سورہ الشعراء اور سورۃ ص میں دو قراءت پائی جاتی ہیں: