کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 68
کی طرف۔‘‘[1] اس زمانے میں صرف مرد ہی کتابت و قراءت نہیں جانتے تھے، بلکہ بعض عورتیں بھی کتابت سے واقف تھیں۔ ان میں سے ایک سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قبیلے سے تعلق رکھنے والی عورت الشفاء بنت عبد تھیں جو اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد کتابت کیا کرتی تھیں۔ اس نے سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کو کتابت سکھلائی۔ [2] فتوح البلدان (۶۶۰) میں ہے کہ مکہ میں دخول اسلام کے وقت سترہ افراد کتابت جاننے والے موجود تھے۔ جب اسلام مدینہ میں داخل ہوا تو کتابت نے خوب ترقی کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کا چار ہزار درہم فدیہ مقرر کیا اور فرمایا کہ جو شخص یہ فدیہ نہیں دے سکتا وہ مسلمانوں کے دس بچوں کو کتابت و قراءت سکھا کر آزاد ہو جائے۔[3] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہ صرف کتابت جانتے تھے، بلکہ نقاط و شکل سے بھی آگاہ تھے۔ علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وَجُرِدَتِ الْمَصَاحِفُ جَمِیْعُھَا مِنَ النُّقَطِ وَالشَّکْلِ لِیَحْتَمِلَھَا مَا صَحَّ نَقْلُہُ وَثَبَتَ تِلَاوَتُہُ عَنِ النَّبِیِّ)) [4] ’’تمام مصاحف کو نقط و شکل سے خالی رکھا گیا تاکہ ان کا رسم صحیح نقل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تلاوت کا احتمال رکھے۔‘‘ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: ((جَرِّدُوْا الْقُرْآنَ لِیَرْبُوْ فِیْہِ صَغِیْرُکُمْ وَلَا یَنْأی عَنْہُ کَبِیْرُکُمْ)) [5] ’’قرآن مجید کو نقاط و حرکات سے خالی رکھو، تاکہ تمہارے بچے اسی میں پرورش
[1] مصادر الشعر الجاھلی: ۱۰۷، ۱۱۴. [2] مستدرک حاکم:۴/۵۷۔ صحیح علی شرط الشیخین. [3] طبقات ابن سعد: ۲/۲۶. [4] النشر: ۱/۷. [5] الفائق للزمخشری: ۱/۱۷۶.