کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 66
حسین و جمیل کام کیا ہے۔ میں ان میں کچھ لحن دیکھتا ہوں، عنقریب عرب اسے اپنی زبان دانی سے درست کر لیں گے۔‘‘ ((عَنْ ھِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَۃَ عَنْ لَحْنِ الْقُرْآنِ: ’’إِنَّ ھٰذٰنِ لَسٰحِرٰن‘‘[1] ’’وَالْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ وَالْمُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ‘‘[2]، ’’وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالصَّبِؤنَ‘‘[3]، فَقَالَتْ: یَا ابْنَ أُخْتِیْ! ھٰذَا عَمَلُ الْکُتَّابِ أَخْطَائُ وْا فِیْ الْکِتَابَۃِ[4])) ’’ھشام بن عروہ رحمہ اللہ سے مروی ہے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے قرآن مجید کی ان آیات ﴿ان ھذن لسحرن﴾ ، ﴿والمقیمین الصلوۃ﴾ اور ﴿والذین ھادوا والصابؤن﴾ میں لحن کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: اے بھانجے! یہ کاتبوں کا کیا دھرا ہے، انہوں
[1] (طہ:۶۳)، ان کلمات میں متعدد قراء ات ہیں جن کی تفصیل کتب قراء ات میں موجود ہے۔ (الاتحاف: ۲/۲۴۹). [2] (النساء:۱۶۲)، اہل علم فرماتے ہیں کہ ﴿المقیمین﴾ منصوب علی المدح ہے۔ (التبیان فی اعراب القران: ۱/۴۰۷). [3] (المائدہ: ۶۹)، اس میں ﴿والصابؤن﴾ مرفوع علی الابتداء ہے۔ جس کی خبر مخذوف ہے۔ (الاتحاف:۱/۵۴۱). [4] طبری:۱/۱۸، المقنع: ۱۲۳، فضائل القرآن: ۲۲۹، قرطبی: ۶/۱۴۔الاتقان: ۱/۴۹۵۔ الدرالمنثور:۲/۷۴۴.