کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 64
طرح کے رسم میں اس کی اتباع کی جاتی ہے… حالانکہ ان کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کیا نسبت ہے… اسی طرح ان کے خط کی اتباع کی گئی اور ان کے رسم کو ثابت کر لیا گیا اور علماء نے اس کے مقامات کی نشاندہی فرما دی۔‘‘ پھر مزید فرماتے ہیں: ’’آپ اس امر میں بعض مغفلین کے دعوے پر ہر گز توجہ نہ دیں جو کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صنعت خط کے ماہر تھے۔ ان کے خطوط کی قواعد رسم کے ساتھ مخالفت کو جو رنگ دیا جاتا ہے وہ درست نہیں ہے۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک کی ایک وجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ﴿ لَأَذْبَحَنَّهُ ﴾جیسے کلمات میں الف کی زیادتی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ فعل ذبح ابھی واقع نہیں ہوا اور ﴿ بِأَيْدٍ ﴾جیسے کلمات میں یاء کی زیادتی کمال قدرت ربانی پر دلالت کرتی ہے۔ یہ اور اس جیسی دیگر مثالیں اٹکل پچو کے سوا کچھ نہیں ہیں، ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔ انہیں اس مقام پر اس عقیدے نے لا کھڑا کیا ہے کہ اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت و شان ہے۔ کیونکہ ان کا گمان ہے کہ مہارت خط میں انسانی کمال ہے اور اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ خط کے ماہر نہیں تھے تو یہ کہنے میں ان کی گستاخی اور توہین ہے۔ لہٰذا اس توہین سے بچنے کے لیے ان کی طرف مہارت خط کی نسبت کی جائے۔ حالانکہ ایسا طرز عمل صحیح نہیں ہے۔‘‘[1] اس رائے کے حاملین نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب بعض آثار سے استدلال کیا ہے۔ جن کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے بعض کلمات کے رسم میں غلطی واقع ہوئی ہے۔ ان آثار میں سے چند درج ذیل ہیں: ۱… ((عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلیٰ بْنِ
[1] تاریخ ابن خلدون: ۱/۷۵۷۔ دارالکتب اللبنانی طبعۃ : ۱۹۵۷.