کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 60
وصل کے قائم مقام سمجھ کر حذف کر دیتے ہیں۔ جو اسے وصلاً و وقفاً ثابت رکھتے ہیں وہ اصل کا اعتبار کرتے ہیں۔ اور جو اسے وصلاً ثابت رکھتے ہیں اور وقفاً حذف کر دیتے ہیں، وہ وصل میں اصل کا اعتبار کرتے ہیں اور وقف میں رسم مصحف کا اعتبار کرتے ہیں، کیونکہ خط عموماً وقف و ابتداء کے موافق لکھا جاتا ہے۔ جب یاء خط میں ثابت نہ ہو تو اسے وقف رسم کی اتباع میں حذف کر دیتے ہیں۔ [1] (ج) بدل: بدل کا لغوی معنی عوض ہے، جبکہ اصطلاح میں بدل سے مراد ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف لانا ہے۔ قرآن مجید میں بدل کی متعدد صورتیں ہیں جیسے الف کو واؤ یا یاء سے، سین کو صاد سے، ھاء کو تاء، اور نون کو الف سے بدل دینا۔ ان تمام حروف کو متعدد اسرار و علل کی بنیاد پر بدلا جاتا ہے، جنہیں یہاں بیان کرنے کا موقع نہیں ہے۔ اس کی بعض مثالیں درج ذیل ہیں۔ ۱۔ بعض کلمات میں ألف کو یاء سے لکھا جاتا ہے، تاکہ اصل پر دلالت ہو سکے کہ یہاں أصلاً یاء ہے۔ جیسے ﴿رمی، أعطی، استسقی، اھتدی﴾ ان کلمات میں امالہ کرنے والوں کے لیے امالہ کیا جائے گا۔ ۲۔ بعض کلمات میں الف کو واؤ سے لکھا جاتا ہے تاکہ اصل پر دلالت ہو سکے کہ اس کی اصل واؤ ہے جیسے ﴿الصلوۃ﴾ اس کی جمع ﴿صلوات﴾ آتی ہے۔ اسی طرح لفظ ﴿الربا﴾ ہے جو ربا یربو سے مشتق ہے۔ ۳۔ ھاء کی تاء سے کتابت: بعض کلمات میں ھائے تانیث کو تاء کے ساتھ اور بعض میں ھاء کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ جن کلمات میں ھاء سے مرسوم ہے جیسے: ﴿رحمۃ، نعمۃ، کلمۃ﴾ ان میں وقف بالھاء کرنے پر تمام قراء کا اتفاق ہے۔ اور جن کلمات میں وہ تاء کے ساتھ مرسوم ہے جیسے: ﴿رحمت، نعمت، کلمت﴾ ان
[1] الکشف عن وجوہ القراء ات السبع: ۱/۳۳۳.