کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 59
اصل ﴿سندعو﴾ ہے۔[1]
(ب) وہ کلمات جن میں نون اضافت کی وجہ سے اور واؤ اکتفاء ضمہ کی وجہ سے محذوف ہے
جیسے: ﴿وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (التحریم:۴) یہ کلمہ اصل میں ﴿وصالحون﴾ ہے۔
۳۔ حذف یاء:
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یاء کو حذف کیا گیا ہے۔ خواہ وہ یائے أصلیہ ہو جیسے: ﴿الداع﴾ اس کی أصل ﴿الداعی﴾ ہے، یا یائے زائدہ ہو جیسے: ﴿فارھبون، فاتقون﴾۔
مصاحف میں تخفیفاً یاء کو حذف کیا جاتا ہے اور یہ عرب کے ہاں ایک معروف لغت ہے۔ وہ کہتے ہیں: ((جاء نی القاضِ، مررت بالقاضِ)) وہ یاء پر کسرہ کی دلالت کی وجہ سے یاء کو حذف کر دیتے ہیں۔ یہاں تک بحث کا تعلق لغت کے اعتبار سے ہے۔[2]
بسا اوقات یاء کو اس لیے حذف کیا جاتا ہے، کہ وہ اثبات یاء اور حذف یاء دونوں قراء ات پر دلالت کر سکے۔ بعض قراء کرام اس کو وصلا و وقفا حذف کرتے ہیں، بعض اس کو وصلاً ووقفاً ثابت رکھتے ہیں اور بعض وصلاً ثابت رکھتے ہیں اور وقفاً حذف کر تے ہیں۔
جو اسے وصلاً و وقفاً حذف کرتے ہیں، وہ رسم کی اتباع، کسرہ کی یاء پر دلالت اور وقف کو
[1] علامہ زرکشی فرماتے ہیں کہ مذکورہ چاروں افعال میں واؤ کو، فعل کے وقوع کی سرعت، فاعل پر اس فعل کی سہولت اور شدت قبولیت پر دلالت کرنے کے لیے حذف کیا گیا ہے۔
۱۔ ﴿ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ ﴾اس میں فعل کی سرعت اور پکڑنے کی قوت پر دلالت ہے اور یہ بہت بڑی وعید ہے۔
۲۔ ﴿ وَيَمْحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ ﴾اس میں حق کے جلدی آنے اور باطل کے جلدی سے بھاگ جانے پر دلالت ہے۔
۳۔ ﴿ وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ ﴾اس کلمہ میں حذف واؤ اس امر پر دلالت کر رہی ہے کہ انسان کے لیے شر کو قبول کرنا انتہائی آسان ہے اور وہ خیر کی نسبت اسے جلدی قبول کر لیتا ہے۔
۴۔ ﴿ يَوْمَ يَدْعُ الدَّاعِ ﴾اس میں حذف واؤ، دعاء اور اس کی قبولیت کی سرعت دونوں پر دلالت کر رہی ہے۔
البرھان:۱/۳۹۷، ۳۹۸.
[2] الکشف عن وجوہ القراء ات السبع: ۱/۳۳۱.