کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 58
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَتْ تَزَاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ ﴾ (الکہف:۱۷) اس آیت مبارکہ کے لفظ ﴿تزور﴾ میں تین قراء ات ہیں: ۱۔ ﴿تَزْوَرُّ﴾ زاء کے سکون، راء کی تشدید اور بدون الف، یہ ابن عامر اور یعقوب کی قراءت ہے۔ ۲۔ ﴿تَزَاوَرُ﴾ زاء مخففہ کے فتحہ، راء کی تخفیف اور زاء کے بعد الف سے۔ یہ کوفیوں کی قراءت ہے۔ ۳۔ ﴿تَزَّاوَرُ﴾ زاء مشددہ کے فتحہ، راء کی تخفیف اور زاء کے بعد الف سے۔ یہ باقی قراء کی قراءت ہے۔ چنانچہ اس کلمہ کو ﴿تزور﴾ بحذف الف لکھا گیا ہے تاکہ تینوں قراء ات پڑھی جا سکیں۔ جس طرح﴿ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴾سے دونوں قراء ات پڑھی جاتی ہے۔[1] ۲۔ حذف واؤ: (أ) وہ کلمات جن میں ضمہ پر اکتفاء کرتے ہوئے واؤ کو حذف کیا گیا ہے، اور یہ کل چار افعال ہیں۔ ۱۔ ﴿ وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ ....﴾ (الاسراء:۱۱) یہاں لفظ ﴿یَدْعُ﴾ کی واؤ محذوفہ ہے۔ اس کی اصل ﴿یدعو﴾ ہے۔ ۲۔ ﴿ وَيَمْحُ اللّٰهُ الْبَاطِلَ ﴾ (الشوری:۲۴) یہاں ﴿ وَيَمْحُ ﴾کی واؤ حذف ہے۔ اس کی اصل ﴿ویمحو﴾ ہے۔ ۳۔ ﴿ يَوْمَ يَدْعُ الدَّاعِ .... ﴾ (القمر:۶) یہاں ﴿ يَدْعُ ﴾ کی واؤ محذوف ہے۔ اس کی اصل ﴿یدعو﴾ ہے۔ ۴۔ ﴿ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ ﴾ (العلق:۱۸) یہاں ﴿ سَنَدْعُ ﴾کی واؤ محذوف ہے۔ اس کی
[1] اتخاف فضلاء البشر: ۲/۲۱۰.