کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 56
قواعد رسم عثمانی کے أسرار و رموز
(أ) زیادت:
اس قاعدے کی مثالیں درج ذیل ہیں:
۱۔ ﴿مائۃ﴾ میں الف کی زیادتی اس کلمہ اور ﴿منہ﴾ کے درمیان فرق کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ کیونکہ اس دور میں مصاحف نقاط و حرکات سے خالی تھے۔ اور ﴿مائتین﴾ کو اس کے ساتھ ملحق کر دیا گیا ہے۔ یہ دونوں کلمات جہاں بھی آئیں زیادتی الف سے لکھے جائیں گے۔
۲۔ ﴿أولی﴾ میں واؤ کی زیادتی اس کلمہ اور ﴿اِلی﴾ حرف جارہ کے درمیان فرق کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ اسی طرح ﴿أولئک﴾ میں واؤ کی زیادتی اس کلمہ اور ﴿اِلیک﴾ میں فرق کرنے کے لیے کی گئی ہے اور دیگر کلمات ﴿اولوا، اولات، اولائکم﴾ کو اس کے ساتھ ملحق کر دیا گیا ہے۔[1]
۳۔ ﴿ وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ﴾ (الذاریات:۴۷) کے لفظ ﴿ بِأَيْدٍ ﴾ میں یاء کی زیادتی اس کلمہ اور ﴿الأید﴾ بمعنی قوت میں فرق کرنے کے لیے کی گئی ہے۔[2]
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ﴿ بِأَيْدٍ ﴾ قوت و قدرت کے معنی میں ہے۔[3]
اہل علم کا اس امر میں اختلاف ہے کہ لفظ ﴿ بِأَيْدٍ ﴾ میں پہلی یاء زائدہ ہے یا دوسری یاء زائدہ ہے؟
[1] النشر:۱/۹۲۔ ۴۵۷.
[2] البرھان:۱/۳۸۷.
[3] القرطبی: ۱۷/۵۲.