کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 54
علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’آپ دیکھیں انہیں نے کیسے ﴿الصراط﴾ اور ﴿المصیطرون﴾ کو سین سے مبدلہ صاد کے ساتھ لکھا ہے اور أصلی کلمہ سین سے اعراض کر لیا ہے۔ تاکہ سین والی قراءت اصل کے مطابق نکل آئے… جو اگرچہ رسم کے مخالف ہے… اور رسم اور اصل والی دونوں قراءت برابر ہو جائیں اور اشمام والی قراءت کا احتمال پیدا ہو جائے۔ اگر اس کلمہ کو اصل کے مطابق سین سے لکھا جاتا تو اشمام والی قراءت فوت ہو جاتی اور غیر سین والی قراءت کو رسم اور أصل دونوں کے خلاف سمجھا جاتا۔[1] یہی وجہ ہے کہ سورۃ الاعراف والے ﴿بصطۃ﴾[2] میں صاد کے ساتھ لکھے جانے کی وجہ سے اختلاف مشہور ہے۔ جبکہ سورۃ البقرۃ والے ﴿بسطۃ﴾[3] میں سین کے ساتھ لکھے جانے کی وجہ سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ‘‘[4]
[1] امام مکی بن ابی طالب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سین کے ساتھ ﴿السراط﴾ پڑھنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ اس کلمہ کی اصل سین ہے۔ اس کو صاد کے ساتھ اس کے بعد طاء کی وجہ سے بدلا گیا ہے، اور صاد کے ساتھ پڑھنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ ہم رسم مصحف کے مطابق پڑھتے ہیں۔ سین حرف مہموس ہے جس میں پستی ہے اور اس کے بعد طاء حرف مطبق ہے جس میں بلندی ہے۔ لہٰذا مہموس پست حرف کے بعد مطبق بلند حرف کو پڑھنا دشوار ہے۔ اس لیے سین کو صاد سے بدل دیا گیا ہے تاکہ صاد اور طاء میں قربت پیدا ہو جائے اور ان دونوں حروف کو ایک ہی دفعہ بلندی سے پڑھنا زبان پر آسان ہو جائے۔ جمہور عرب اور اکثر قراء کرام اس مذھب پر ہیں۔
اشمام زاء سے پڑھنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ صفت جہر میں صاد کی طاء سے مخالف ہے۔ کیونکہ صاد حرف مہموس ہے اور طاء حرف مجہور ہے۔ لہٰذا صاد میں جہر کرنے کے لیے اس میں زاء کا اشمام کرتے ہیں۔ کیونکہ زاء حرف مجہور ہے۔ چنانچہ طاء سے قبل ایسا حرف آ جاتا ہے جو صفت اطباق اور صفت جہر میں طاء کے مشابہ ہے۔ (الکشف عن وجوہ القراء ات السبع: ۱/۳۴، ۳۵).
[2] ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً ﴾ (الاعراف:۶۸).
[3] ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ﴾ (البقرۃ:۲۴۷).
[4] النشر: ۱/۱۲، اس کا مطلب یہ ہے کہ سورہ بقرہ کا ﴿بسطۃ﴾ سین سے مکتوب ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، بلکہ تمام قراء سین کے ساتھ پڑھنے پر متفق ہیں۔ جبکہ سورۂ اعراف کا ﴿ بَصْطَةً ﴾صاد سے مکتوب ہے اور اس میں دو قراء ات ہیں۔ اس کا یہ معنی بھی نہیں ہے کہ قراء ت رسم کے تابع ہے۔ رسم مصاحف، قراء ات سے متاخر ہے اور قراء ت سنت متبعہ ہے۔ ہمارا مقصود یہاں یہ ہے کہ مصاحف عثمانیہ ایسے رسم پر لکھے گئے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت تمام وجوہ کا احتمال رکھتے تھے اور یہ رسم اس امرپر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مصاحف کو صحیح قواعد و اساس پر لکھا تھا.