کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 50
ہوتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام سے وحی کا اور موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے طور پہاڑ پر آنے کا وعدہ کیا۔[1]
(ب) حذف اختصار:
جیسے جمع مذکر سالم اور جمع مؤنث سالم کے الف کا حذف ہے۔
جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ ﴾ (المائدہ:۴۱)
﴿ إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ …… ﴾ (الاحزاب:۳۵)
ان تمام کلمات میں الف محذوف ہے۔
(ج) حذف اقتصار:
جو بعض کلمات کو چھوڑ کر بعض کے ساتھ خاص ہے جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَوْ تَوَاعَدْتُمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ﴾ (الأنفال:۴۲)
اس آیت مبارکہ میں لفظ ﴿ اَلْمِيعَادِ ﴾ میں عین کے بعد الف محذوف ہے۔
۲۔ زیادت
جیسے: ﴿ أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ ﴾ (النمل:۲۱) یہاں الف زیادہ ہے۔
﴿ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴾ (ص:۲۹) یہاں واؤ زیادہ ہے۔
﴿ وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ ﴾ (الذاریات:۴۷) یہاں یاء زیادہ ہے۔
۳۔ بدل:
یعنی ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف لکھ دینا مثلاً الف کی جگہ واؤ لکھنا۔ جیسے ((الصلوۃ، الزکوۃ، الحیوۃ))
[1] حجیۃ القراء ات: ۹۶.