کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 41
نیز انہوں نے یہ بھی جان لیا کہ ان تمام حروف کو ایک ہی مصحف میں کلمہ کے اعادہ کے بغیر لکھنا ممکن نہیں ہے، اور کلمہ کے اعادہ (یعنی دو یا تین بار لکھنے) سے التباس و اختلاط کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے ان حروف کو تمام مصاحف میں تقسیم کر دیا، یہی وجہ ہے کہ بعض مصاحف میں یہ کلمات ثابت ہیں اور بعض میں محذوف ہیں۔ امت نے جس طرح یہ حروف نازل ہوئے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسموع تھے، اسی طرح انہیں محفوظ کر لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان حروف کو مختلف شہروں کے مصاحف میں متفرق طور پر لکھا گیا ہے۔‘‘[1]
اختلاف مصاحف کی مثالیں:
۱۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ ﴾ (البقرۃ: ۱۳۲)
اس آیت مبارکہ میں امام نافع رحمہ اللہ ، امام ابن عامر رحمہ اللہ اور امام ابو جعفر رحمہ اللہ نے ﴿وأوصی﴾ اور باقی قراء نے ﴿ وَوَصَّى ﴾پڑھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کلمہ مصحف مدینہ اور مصحف شام میں ﴿وأوصی﴾ اور مصحف کوفہ و مصحف بصرہ میں ﴿ وَوَصَّى ﴾بدون الف لکھا ہوا ہے۔[2] تاکہ ہر شہر کے لوگوں کی قراءت کے موافق ہو جائے۔
۲۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ ﴾ (آل عمران: ۱۳۳)
اس آیت مبارکہ کو امام نافع رحمہ اللہ ، ابن عامر شامی رحمہ اللہ اور ابو جعفر رحمہ اللہ نے ﴿سارعوا﴾ بدون واؤ، اور باقی قراء نے﴿ وَسَارِعُوا ﴾بالواؤ پڑھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کلمہ مصحف مدینہ اور مصحف شام میں ﴿سارعوا﴾ بدون واو، اور مصحف کوفہ و مصحف بصرہ میں ﴿ وَسَارِعُوا ﴾بالواؤ مرسوم ہے۔[3] تاکہ ہر شہر کے لوگوں کی قراءت کے موافق ہو جائے۔
[1] المقنع:۱۱۲.
[2] النشتر: ۲/۲۲۲، ۲۲۳، کتاب المصاحف: ۱/۲۴۷.
[3] المقنع: ۱۰۷، کتاب المصاحف:۱/۲۴۸.