کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 40
ہے۔بسا اوقات کلمہ قرآنیہ ایک قراءت کا تحقیقاً اور دوسری قراءت کا تقدیراً احتمال رکھتا ہے، جیسے: ﴿ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴾ (الفاتحۃ:۳) اس آیت مبارکہ میں لفظ ﴿ مَالِكِ ﴾ تمام مصاحف میں بدون ألف مرسوم ہے۔ چنانچہ حذف الف والی قراءت تحقیقاً رسم کے ساتھ متفق ہے جیسے ﴿ مَلِكِ النَّاسِ ﴾ (الناس:۲) اور اثبات الف والی قراءت تقدیراً رسم کا احتمال رکھتی ہے۔ جیسے﴿ قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ ﴾ (آل عمران:۲۶) اس میں اختصاراً الف کو حذف کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں انواع (تحقیقی و تقدیری) میں تمام مصاحف کا رسم متحد ہے، اور نقاط و حرکات سے خالی ہونے کی بناء پر تمام وجوہ کا احتمال رکھتا ہے۔ ۳۔ تیسری نوع:…وہ کلمات جو نقص و زیادت پر مشتمل ہیں اور انہیں مصحف میں دو یا دو سے زیادہ مرتبہ لکھنا ممکن نہیں ہے، تاکہ اختلاط والتباس پیدا نہ ہو۔ یہ نوع ہر مصحف میں، بھیجے جانے والے شہر کی قراءت کے مطابق لکھی گئی تھی اور مجموعی طور پر تمام مصاحف مل کر ان حروف پر مشتمل تھے۔ یعنی ہر مصحف ان تمام حروف پر مشتمل نہیں تھا۔ امام ابو عمرو دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛ ’’اگر کوئی سائل یہ سوال کرے کہ وہ کون سا موجب ہے، جس کے سبب ان حروف زائدہ کو متفرق طور پر مختلف مصاحف میں لکھا گیا ہے؟ تو میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کو مصاحف میں جمع فرمایا، اس کو ایک ہی صورت پر نقل کیا۔ اس کے رسم میں احتیاطاً امت کا لحاظ رکھتے ہوئے دیگر غیر صحیح و غیر ثابت لغات کی بجائے لغت قریش کو ترجیح دی اور ان کے نزدیک یہ ثابت ہو گیا کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسموع ہیں۔