کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 36
((وَلَا شَکَّ أَنَّ الْقُرْآنَ نُسِخَ مِنْہُ، وَغُیِّرَ فِیْہِ فِیْ الْعَرْضَۃِ الْأَخِیْرَۃِ، فَقَدْ صَحَّ النَّصُّ بِذٰلِکَ عَنْ غَیْرِ وَاحِدٍ مِنَ الصَّحَابَۃِ، وَرَوَیْنَا بِإِسْنَادٍ صَحِیْحٍ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ قَالَ: قَالَ لِیْ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَیُّ الْقِرَآئَ تَیْنَ تَقْرَأُ؟ قُلْتُ: الْأَخِیْرَۃَ، قَالَ: فَإِنَّ النَّبِیَّ کَانَ یَعْرِضُ الْقُرْآنَ عَلیٰ جِبْرِیْلَ فِی کُلِّ عَامٍ مَرَّۃً، قَالَ: فَعَرَضَ عَلَیْہِ الْقُرْآنَ فِی الْعَامِ الَّذِیْ قُبِضَ فِیْہِ النَّبِیُّ مَرَّتَیْنِ، فَشَھِدَ عَبْدُ اللّٰہ… یَعْنِیْ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ… مَا نُسِخَ مِنْہُ وَمَا غُیِّرِ، فَقِرَآئَۃُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَخَیْرَۃُ)) [1]
’’اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ عرضۂ أخیرہ کے دوران قرآن مجید کا کچھ حصہ منسوخ کر دیا گیا تھا، اور اس میں تبدیلی کر دی گئی تھی، اور یہ بات ایک سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح نص کے ساتھ ثابت ہے۔ہم نے صحیح سند کے ساتھ سیدنا زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں، مجھ سے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم کس قراءت کے مطابق پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: قراءت أخیرہ کے مطابق۔ راوی فرماتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال جبریل علیہ السلام کے ساتھ ایک دفعہ دور فرمایا کرتے تھے اور جس سال آپ نے وفات پائی، اس سال آپ نے دو دفعہ دور فرمایا اور سیدنا عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی اس آخری دور میں حاضر تھے۔ چنانچہ آپ کو منسوخ التلاوۃ اور مبدلہ حروف کا علم تھا۔ لہٰذا قراءت أخیرہ سے مراد سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت ہے۔‘‘
اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مصاحف عثمانیہ میں صرف وہی لکھا تھا جس کا قرآن ہونا متحقق تھا، اور وہ عرضۂ أخیرہ میں ثابت تھا اور منسوخ التلاوۃ نہیں تھا۔ اس کے بعد علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان مصاحف کو نقطوں اور حرکات سے خالی رکھا تھا تاکہ ایک ہی رسم سے دو مختلف مسموع، منقول اور ثابت شدہ قراء ات پڑھی جا سکیں۔ انہوں نے نہ تو قرآن مجید کا کوئی ثابت حصہ ساقط کیا تھا اور نہ ہی اس کی قراءت سے منع فرمایا تھا۔‘‘[2]
مذکورہ کلام سے اس تیسری رائے کی ترجیح اور سابقہ دونوں مذاہب کا ضعف ظاہر ہوتا ہے۔ عصر حاضر میں معروف قراء ات سبعہ اور قراء ات عشرۃ، عصر اول میں پڑھی جانے والی قراء ات مشہورہ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ ہر صاحب علم اس سے بخوبی آگاہ ہے۔ کیونکہ جن
[1] النشر: ۱/۳۲.
[2] النشر: ۱/۳۱.