کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 35
مذکورہ رائے کا تعاقب: جیسا کہ پہلے بھی گذر چکا ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن مجید کو ان حروف پر جمع فرمایا تھا جو تواتر سے منقول تھے، منسوخ التلاوۃ نہیں تھے اور عرضۂ أخیرہ میں ثابت تھے۔ اس أصول پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے قرآن مجید کا کوئی ایک جزء بھی ترک نہیں کیا تھا۔ بلکہ ہر ثابت شے کو لکھ لیا تھا۔ اور صحیح روایات سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں أحرف سبعہ کا بہت بڑا حصہ منسوخ ہو گیا تھا۔ اس کی سب سے بڑی دلیل وہ قراء ات شاذہ ہیں جو قراء ات صحیحہ کی شرائط پر پورا نہیں اترتیں۔ یہ قراء ات شاذہ ابتداء اسلام میں بطور قرآن تلاوت کی جاتی تھیں، پھر انہیں منسوخ کر دیا گیا۔ تیسری رائے کی حمایت میں بیان کیے گئے دلائل اس دوسری رائے کی تردید کرتے ہیں، جن کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ تیسری رائے: مصاحف عثمانیہ أحرف سبعہ میں سے فقط ان حروف پر مشتمل تھے، جن کا رسم عثمانی میں احتمال تھا اور وہ عرضۂ أخیرہ کے مطابق تھے۔ یہ رائے سلف و خلف میں سے جمہور اہل علم اور ائمہ اسلام کی ہے۔ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: