کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 34
کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت تھے، منسوخ التلاوۃ نہیں تھے اور عرضۂ أخیرہ میں قائم تھے۔ آپ نے مصاحف کو جلانے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے ذاتی مصاحف لکھ رکھے تھے۔ جن میں منسوخ التلاوۃ حروف اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذاتی تفاسیر بھی موجود تھیں، جن سے لوگوں میں اختلاف پیدا ہو رہا تھا، چنانچہ آپ نے فتنے کے خاتمے کے لیے انہیں جلانے کا حکم دے دیا۔ اہل علم کی اصطلاح میں ان منسوخ التلاوۃ حروف اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تفاسیر کو قراء ات شاذہ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ قراء ات صحیحہ کی درج ذیل تین شرائط پر پورا نہیں اترتیں۔ ۱۔ تواتر سے منقول ۲۔ مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کی موافقت ۳۔ لغت عرب کی وجوہ میں سے کسی ایک کی مطابقت۔[1] دوسری رائے: مصاحف عثمانیہ نازل کردہ تمام أحرف سبعہ پر مشتمل تھے۔ یہ رائے متعدد فقہاء کرام، قراء کرام اور متکلمین اہل علم کی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ امت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ أحرف سبعہ میں سے کسی منقول شئی کو مہمل کر دینا جائز نہیں ہے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مصاحف عثمانیہ کی تیاری اور ان کی مختلف اسلامی شہروں کی طرف روانگی پر اجماع ہے اور اس امر پر بھی اجماع ہے کہ جو کچھ ان مصاحف کے علاوہ ہے وہ قرآن نہیں ہے۔ حالانکہ بعض أحرف سبعہ کی قراءت سے منع کرنا اور قرآن کے ترک پر اجماع کرنا حرام عمل ہے۔[2]
[1] منجد المقرئین و مرشد الطالبین: ۹۱۔ الاتقان: ۱/۱۲۹۔ غیث النفع: ۶،۷. [2] النشر: ۱/۳۱۔ الاتقان: ۱/۱۴.