کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 33
قاضی ابو بکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛
((لَمْ یَقْصِدْ عُثْمَانُ قَصْدَ أَبِیْ بَکْرِ فِی جَمْعِ نَفْسِ الْقُرْآنِ بَیْنَ لَوْحَیْنِ، وَإِنَّمَا قَصَدَ جَمْعَھُمْ عَلٰی الْقِرَآئَ اتِ النَّبِیِّ صلي اللّٰه عليه وسلم ، وَإِلْغَآئِ مَا لَیْسَ کَذٰلِکَ، وَأَخْذِھِمْ بِمُصْحَفٍ لَّا تَقْدِیْمَ فِیْہِ وَلَا تَأَخِیْرَ، وَلَا تَاْوِیْلَ أُثْبِتَ مَعْ تَنْزِیْلٍ، وَمَنْسُوْخِ تِلَاوَتِہِ کُتِبَ مَعَ مُثْبِتِ رَسْمِہِ، خَشَیْۃَ دُخُوْلِ الْفَسَادِ وَالشُّبْھَۃِ عَلیٰ مَنْ یَأَتِیْ بَعْدُ)) [1]
’’سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا مقصود سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مانند فقط دو گتوں کے درمیان قرآن جمع کرنا نہیں تھا۔ بلکہ ان کا مقصود لوگوں کو ان قراء ات ثابتہ پر جمع کرنا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معروف تھیں۔ نیز انہوں نے تمام غیر صحیح قراءت کو لغو کر دیا اور تقدیم و تاخیر سے پاک مصحف کی ترتیب لگا دی۔ جس میں ذاتی تفاسیر اور منسوخ التلاوۃ عبارتوں کو حذف کر دیا گیا۔ تاکہ بعد میں آنے والے لوگ فتنہ و فساد کا شکار نہ ہوں۔‘‘
یہ ناممکن امر ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کو ایسی قراءت سے منع کریں، جس کی قرآنیت معلوم ہو چکی ہو، اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہو۔ اور یہ بھی ناممکن ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس امر میں اُن کی موافقت کریں، خصوصاً جب وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرنے والے نہ ہوں۔[2]
نیز یہ رائے اس امر واقعہ کے بھی خلاف ہے، جس پر آج مسلمان قائم ہیں۔ آج ہمارے پاس أسانید متصلہ اور طرق صحیحہ کے ساتھ جو قراء ا ت پہنچی ہوئی ہیں وہ متعدد حروف پر مشتمل ہیں۔ ان قراء ات کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک مصحف کے موافق ہوں۔ عصر حاضر میں پڑھی جانے والی تمام قراء ات سبعہ اور قراء ات عشرہ مصاحف عثمانیہ میں سے کسی نہ کسی ایک مصحف کے موافق ہیں۔ اس موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے أحرف سبعہ میں فقط ایک حرف پر لوگوں کو جمع فرمایا اور دیگر چھ حروف ترک کر دئیے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ان تمام حروف پر جمع فرمایا تھا جو نبی
[1] البرھان فی علوم القرآن: ۱/۲۳۵، ۲۳۶.
[2] الکلمات الحسان فی حروف السبعۃ وجمع القرآن لمحمد بخیت المطیعی: ۱۲۲.