کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 25
(ت ۴۵ھ)، سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ (ت۷۳ھ)، سیدنا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ (ت ۵۸ھ) اور سیدنا عبد الرحمن بن حارث بن ھشام رضی اللہ عنہ (ت ۴۳ھ) کو حکم دیا کہ وہ ان صحف کو مصاحف میں نقل کردیں اور تین قریشی صحابہ (یعنی آخری تین سیدنا زید رضی اللہ عنہ کے علاوہ) کو حکم دیا کہ جب کسی شے میں تمہارا اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا اختلاف ہو جائے تو اسے لغت قریش میں لکھو، کیونکہ قرآن مجیداسی لغت میں نازل ہوا ہے۔[1] چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب تمام صحف مصاحف میں نقل ہو گئے تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ صحف سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس لوٹا دئیے، اور ہر طرف ایک ایک مصحف روانہ کر دیا اور حکم دے دیا کہ ان سرکاری مصاحف کے علاوہ تمام ذاتی صحیفے اور مصاحف جلا دئیے جائیں۔ ‘‘[2]
۲۔ معلمین قرآن کا اختلاف:
قرآن مجید کی تعلیم دینے والے معلم قراء کرام بچوں کو ان حروف (یعنی لہجات و قراء ات ) کے مطابق تعلیم دیتے تھے، جو انہوں نے خود سیکھے ہوئے تھے، چنانچہ مختلف روایات میں
[1] ابتداء ً قرآن مجید لغت قریش ہی میں نازل ہوا تھا۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادتی طلب کی تھی۔ ((أقرأنی جبریل علی حرف فراجعتہ…)) (بخاری۔ مسلم) ’’جبریل سب سے پہلے حرف قریش لے کر ہی نازل ہوئے پھر دیگر حروف لاتے رہے۔‘‘ جبریل ہر رمضان میں آپ کے ساتھ دور فرمایا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ حسب ضرورت دیگر حروف و کلمات نازل کرتے رہتے تھے۔ امام ابو شامہ بعض شیوخ سے نقل کرتے ہیں کہ : قرآن مجید پہلے لغت قریش اور ان کے پڑوس میں موجود فصیح لغات میں نازل ہوا۔ پھر اہل عرب کو اپنی اپنی لغات میں پڑھنے کی اجازت دے دی گئی، اور کسی کو اپنی لغت چھوڑ کر دوسری لغت میں پڑھنے کا مکلف نہ بنایا گیا تاکہ مشقت نہ ہو۔ یا پھر ((نزل بلسانھم)) سے مراد اس کا اکثر حصہ ہے۔ یا وہ اصطلاحات ہیں جو انہوں نے کتابت کے لیے مقرر کی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کا لفظ ((التابوت)) کی تاء میں اختلاف ہوا تو انہوں نے کتابت قریش کی طریق پر عمل کرتے ہوئے اسے لمبی تاء کے ساتھ لکھا۔ کتاب المصاحف: ۱/۲۰۷، ۲۰۸.
[2] بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن۔ ترمذی، أبواب التفسیر: ۴/۳۴۷، ۳۴۸۔ شرح السنۃ للبغوی: ۴/۵۱۹۔ فضائل القرآن لابن کثیر: ۳۰۔ المصاحف: ۱/۲۰۴.