کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 24
دیگر لوگ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی قراءت پڑھتے تھے۔ [1]
باوجودیکہ مسلمانوں کو اس بات کا علم تھا کہ یہ قراء ات متعدد وجوہ پر مشتمل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے امت محمدیہ پر بطور آسانی و رخصت کے نازل کی گئی ہیں، مرور ایام اور طوالت زمانہ کے ساتھ ہر صوبے کے لوگوں کے قلوب و أذھان میں یہ بات پختہ ہوتی گئی کہ ان کی قراءت أصح اور أولی ہے۔ چنانچہ جب وہ کسی جگہ میدان جہاد یا اجتماع میں اکٹھے ہوتے تو ایک دوسرے کی قراءت کا انکار کر دیتے۔
نسخ مصاحف کے اسباب
مختصراً چند اسباب درج ذیل ہیں:
۱۔ مختلف شہروں اور صوبوں کے لوگوں کا قراءت میں اختلاف:
جیسا کہ تمہید میں گذر چکا ہے۔ نیز امام بخاری رحمہ اللہ اپنی سند کے ساتھ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
’’سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ، سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے۔ ان دنوں اہل شام اور اہل عراق اکھٹے مل کر آرمینیہ اور آذربائیجان میں جہاد کر رہے تھے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جب قراءت میں ان کا اختلاف دیکھا تو نہایت پریشان ہوئے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیر المؤمنین! اس امت کو سنبھالیے قبل اس کے کہ یہ کتاب اللہ میں یہود و نصاریٰ کی طرح اختلاف کرنے لگیں۔ چنانچہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ عہد صدیقی میں لکھے گئے صحف ہمارے پاس بھیج دیں۔ ہم انہیں مصاحف میں نقل کر کے آپ کو واپس کر دیں گے۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دئیے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ
[1] المصاحف: ۱/۱۹۰.