کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 23
عہد عثمانی میں نسخ مصاحف… اسباب و منہج تمہید: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَقْرَأَنِیْ جِبْرِیْلُ عَلٰی حَرْفٍ ، فَرَاجَعْتُہُ، فَلَمْ أَزَلْ أَسْتَزِیْدُہُ وَیَزِیْدُنِیْ حَتّٰی انْتَہٰی إِلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ۔)) [1] ’’مجھے جبریل علیہ السلام نے ایک حرف پر قرآن مجید پڑھایا، پس میں نے ان سے تکرار کیا اور مسلسل اصرار کر کے زیادہ طلب کرتا رہا اور وہ زیادہ کرتے رہے، حتی کہ سات حروف تک پہنچ گئے۔‘‘ اس امر میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قرآن مجید سات حروف پر نازل ہوا ہے اور ((أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ)) احادیث صحیحہ متواترہ سے ثابت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام ساتوں حروف کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ تمام حروف آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ نہیں کیے۔ بلکہ کسی نے ایک حرف سیکھا تو کسی نے دو سیکھے، تو کسی نے دو سے زائد حروف حاصل کیے۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مختلف شہروں میں پھیل گئے تو تابعین نے ان سے وہی حروف اخذ کیے جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیے تھے۔ چنانچہ ناقلین قراءت کا اختلاف ہو گیا۔ بعض نے ایک معین قراءت نقل کی تو دیگر نے وہ نقل نہ کی، کیونکہ انہوں نے وہ قراءت سنی ہی نہیں تھی۔ ہر صوبے یا شہر کے لوگ اپنے درمیان کسی مشہور صحابی کی قراءت پڑھتے تھے۔ جیسے اہل شام سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراءت، اہل کوفہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت اور
[1] بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب انزل القرآن علی سبعۃ: ۴۹۹۱۔ مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب بیان أن القرآن علی سبعۃ أحرف: ۲۷۲/۸۱۹.