کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 22
کر دیا گیا اور اس کا نام ((الصحف)) رکھا گیا۔
امام ابو عبد اللہ المحاسبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کتابت قرآن بدعت نہیں ہے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کو ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل کرنے کا حکم دیا اور یہ ان اوراق کی مانند ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بکھرے پڑے ہوں اور کوئی شخص انہیں جمع کر کے دھاگے کے ساتھ سلائی کر دے۔ تاکہ ان میں سے کوئی شے ضائع نہ ہو۔‘‘[1]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بعض ایسے مصاحف سامنے آئے، جو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی ذاتی تلاوت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یا کاتبین وحی کی کتابت کو دیکھ کر لکھے تھے۔ جیسے مصحف عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور مصحف ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وغیرہ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ان ذاتی مصاحف میں بعض آیات کی تفاسیر اور بعض شاذ قراء ات بھی لکھی ہوئی تھیں۔ لہٰذا سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے سرکاری مصاحف کی مختلف شہروں کی طرف روانگی کے بعد دیگر تمام مصاحف کو جلا دینے کا حکم دے دیا۔[2]
[1] البرھان: ۱/۲۳۸۔ الاتقان: ۱/۶۰.
[2] المصاحف: ۱/۲۰۴۔ الاتقان: ۴/۱۵۸.