کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 20
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شریک تھے۔ لہٰذا یہاں بھی قاعدے کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔[1] امام ابن ابی داؤد رحمہ اللہ اپنی سند کے ساتھ سیدنا عبد اللہ بن زبیر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ((أَتَی الْحَارِثُ ابْنُ خُزَیْمَۃَ بِہَا تَیْنِ الْآیَتَیْنِ مِنْ آخِرِ سُوْرَۃِ بَرَآئَۃَ فَقَالَ: أَشْہَدُ أَنِّیْ سَمِعْتُہُمَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَوَعَیْتُہُمَا، فَقَالَ عُمَرُ: وَأَنَا أَشْہَدُ لَقَدْ سَمِعَتُہُمَا۔)) [2] ’’سیدنا حارث بن خزیمہ رضی اللہ عنہ سورۃ توبہ کی ان دونوں آخری آیات کو لے کر آئے اور گواہی دی کہ میں نے ان دونوں آیات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور محفوظ کیا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بھی گواہی دیتا کہ میں نے بھی ان دونوں آیات کو سنا ہے۔‘‘ اس عظیم الشان مہم کی ادائیگی پر سیدنا زید بن ثابت کو اس لیے منتخب کیا گیا، کیونکہ آپ ایک عقل مند، نوجوان اور تہمت سے پاک شخص تھے،نیز آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہے جیسا کہ صحیح بخاری کی سابقہ روایت میں گذرا ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((اِنَّکَ رَجُلٌ شَآبٌّ عَاقِلٌ ، لَانَتَّہِمُکَ ، وَقَدْ کُنْتَ تَکْتُبُ الْوَحْیَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ)) ’’آپ ایک نوجوان عقل مند آدمی ہیں۔ہم آپ پر کوئی تہمت نہیں لگاتے، نیز آپ رسول اللہ کے لیے وحی لکھا کرتے تھے۔‘‘ مذکورہ صفات جمیلہ آپ کی اس عظیم الشان خدمت کی ادائیگی کا سبب نہیں۔ کیونکہ
[1] دیگر أحادیث نبویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کی شہادت کو دو آدمیوں کی شہادت کے مساوی قرار دیا تھا، اس لحاظ سے تنہا ان کی شہادت دو شہادتوں کے قائم مقام ہے۔ لہٰذا قاعدے کی خلاف ورزی والی بات لغو ہو جاتی ہے۔ابو داود: ۳۶۰۷ (مترجم). [2] فتح الباری: ۹/۱۲.