کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 19
فاروق رضی اللہ عنہما کا کھولا تھا۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید کو کھجور کی شاخوں، ہڈیوں، چمڑے کی تختیوں اور لوگوں کے سینوں سے تلاش کر کے ایک جگہ جمع کر دیا۔ حتی کہ سورۃ توبہ کی آخری دو آیات﴿ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ .... ﴾سے لے کر آخر سورۃ تک مجھے سیدنا ابو خزیمہ انصاری کے علاوہ کسی کے پاس نہ ملیں۔ جب پورا قرآن مجید ایک جگہ جمع ہو گیا تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے پاس محفوظ کر لیا، جو آپ کی وفات تک آپ کے پاس رہا، آپ کی وفات کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس منتقل ہو گیا اور ان کی زندگی میں ان کے پاس موجود رہا، پھر آپ کی شہادت کے بعد آپ کی بیٹی ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہا۔‘‘ اسلوب و منہج: یہ بات سب کو معلوم ہے کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مکمل قرآن مجید کے حافظ تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے قرآن مجید کی حفاظت اور مقام و مرتبے کے شایان شان ایک منہج مقرر کیا اور اس کے مطابق پورے قرآن مجید کو جمع کیا۔ تاکہ کوئی غیر قرآن شے یا چیز، قرآن کا حصہ نہ بن جائے اور قرآن مجید کا کوئی حرف یا کلمہ ناقص نہ رہ جائے۔ آپ اس وقت تک کوئی آیت مبارکہ نہیں لکھتے تھے جب تک دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ گواہی نہ دیتے تھے کہ یہ آیت مبارکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے، اور ان وجوہ کے مطابق ہے، جن پر قرآن مجید نازل ہوا ہے۔ صرف حفظ پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ نیز اس بات کا بھی لحاظ رکھتے تھے کہ وہ آیت مبارکہ منسوخ نہیں ہوئی اور عرصۂ أخیرہ میں ثابت تھی۔[1] اعتراض: اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے سورۃ توبہ کی آخری دو آیات کی کتابت میں اس قاعدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ کیونکہ یہ دونوں آیات انہوں نے فقط ایک صحابی ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پائی تھیں۔ اس میں دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گواہی نہیں لی گئی۔ جواب: دراصل بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں آیات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے میں خود سیدنا
[1] فتح الباری: ۱۰/۳۸۸، کتاب المصاحف للسجستانی: ۱/۱۸۱، تحقیق الدکتور محب الدین عبد السبحان طبع قطر.