کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 14
دی، جو امت عربیہ تک پہنچ گئی، جس میں قرآن مجید نازل ہوا ہے۔‘‘
یہ بات تو واضح ہے کہ عہد نبوت میں کتابت جاننے والوں کی تعداد انتہائی قلیل تھی۔ جن میں سے مکہ میں خلفائے أربعہ رضی اللہ عنہم ، سیدنا ابو سفیان، سیدنا طلحہ بن عبید اللہ، سیدنا معاویہ بن ابو سفیان، سیدنا أبان بن سعید اور سیدنا العلاء بن المقری، جبکہ مدینہ میں سیدنا عمر بن سعید، سیدنا ابی بن کعب، سیدنا زید بن ثابت اور سیدنا منذر بن عمرو رضی اللہ عنہم قابل ذکر ہیں۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو تعلیم اور کتابت کی نشر و اشاعت پر خصوصی توجہ دی۔ حتی کہ غزوہ بدر میں گرفتار ہونے والے بعض مفلس قیدیوں کا فدیہ، مسلمانوں کے بچوں کو کتابت و قرأۃ سکھلانا مقرر کیا۔[1]
ان اصطلاحات کے نتیجے میں کتابت ہر طرف پھیل گئی اور تمام مفتوح اسلامی مملکت میں عام ہو گئی۔ مسلمان اہل علم نے کتابت کے أصول و قواعد مدون کیے اور اس پر بعض تحسینیات داخل کیں۔ جس سے وہ اپنی موجودہ کامل ترین شکل میں سامنے آ گئی۔
علمائے کوفہ اس میدان کے سب سے بڑے شاہسوار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ خط کی نسبت علماء کوفہ کی جانب کی جانے لگی اور اسے خط کوفی کہا جانے لگا۔ علمائے کوفہ کے بعد علمائے بصرہ نے اس میدان میں خدمات انجام دیں۔ یہاں تک کہ بنو عباسیہ کے خلیفہ مقتدر باللہ کے وزیر ابو علی محمد بن مقلہ نے خط کوفی میں مناسب تبدیلیاں کیں اور اسے موجودہ شکل میں تبدیل کیا۔ اس کام کی انجام دہی میں انہیں ابو الحسن، علی بن ہلال البغدادی المروف بابن البواب کی معاونت حاصل رہی۔ ان کے بعد ہر دور میں متعدد اہل علم نے اس میدان میں شاندار خدمات انجام دیں۔ یہاں تک کہ کتابت رونق، خوبصورتی اور حسن ترکیب میں اپنی اس موجودہ شکل تک جا پہنچی۔ [2]
کتابت کا اصل حکم یہ ہے کہ کلمہ کو ابتداء ووقف کا لحاظ رکھتے ہوئے نطق کے مطابق بغیر
[1] زاد المعاد: ۵/۶۵.
[2] المزھر للیسوطی: ۴/۳۴۹، عیون الأخبار لابن قتیبۃ: ۱/۲۳.