کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 119
اگر متروک حرف کا بدل أصلی کتابت میں موجود ہو تو اس بدل کی بجائے ملحق حرف کے مطابق نطق کیا جائے گا۔ جیسے: ﴿ الصَّلَاةَ ﴾، ﴿ الرِّبَا ﴾، ﴿ التَّوْرَاةَ ﴾، ﴿ وَاللّٰهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ ﴾، ﴿ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً ﴾۔ اگر سین کو صاد کے نیچے لکھا گیا ہو تو اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ صاد کا نطق زیادہ أشہر ہے۔ اور اس طرح ایک کلمہ میں لکھا گیا ہے۔ ﴿ اَلْمُصَيْطِرُونَ ﴾۔ ٭ علامت مد جیسے: ( ٓ)حرف کے اوپر اس علامت کا وجود، مد اصلی سے زائد مد کے لزوم پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے: ﴿الٓمٓ ﴾، ﴿اَلطَّامَّةُ ﴾، ﴿ قُرُوءٍ ﴾، ﴿سِيئَ بِهِم ﴾، ﴿ بِمَا أُنْزِلَ ﴾ اگرچہ ان مدود کی اقسام میں تفصیل پائی جاتی ہے، جو کتب تجوید میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ یہاں اس کا موقع نہیں ہے۔ اس علامت کو الف مکتوبہ کے بعد الف محذوفہ پر دلالت کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا جیسے: ﴿آمَنُواْ﴾ اگرچہ متعدد مصاحف میں اس کو غلط طور پر ایسے لکھا گیا ہے، اور الف کے اوپر مد ڈالی گئی ہے۔ اس کلمہ کو ہمزہ اور اس کے بعد الف سے لکھا جاتا ہے، جیسے: ﴿ئ امَنُواْ ﴾ ٭ درمیان سے خالی دائرہ: (O) یہ گول دائرہ جس کے درمیان نمبر لگے ہوتے ہیں، اختتام آیت پر دلالت کرتا ہے اور اس میں مکتوب نمبرنگ اس سورت کی آیات کی تعداد پر دلالت کرتی ہے۔ جیسے: ﴿ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (1) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (2) إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ﴾ یہ دائرہ آیت سے پہلے نہیں لگایا جاتا، یہی وجہ ہے کہ تمام سورتوں کے اوائل اس سے خالی ہیں، جبکہ سورتوں کے اواخر میں یہ موجود ہوتا ہے۔ ٭ یہ علامت (٭) أجزاء، أحزاب، أنصاف اور أرباع کی ابتداء پر دلالت کرتی ہے۔ اور کلمہ کے اوپر افقی خط وجوب سجدہ پر دلالت کرتا ہے اور کلمہ کے بعد یہ علامت (٭) مقام سجدہ پر دلالت کرتی ہے، جیسے: ﴿وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ (49) يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ٭