کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 113
عصر حاضر میں مصاحف کی طباعت انتہائی آسان ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے مصاحف ہاتھ سے لکھے جاتے تھے، جس پر ضیاع وقت کے ساتھ ساتھ دقت کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔
سب سے پہلے جو مصحف طبع ہو کو منظر عام پر آیا وہ جرمنی کے شہر ہمبرگ میں ھنکلمان کے زیر اشراف تقریباً ۱۱۰۶ھ… ۱۶۹۴ء میں طبع ہوا۔ اس کا ایک نسخہ دارالکتب المصریۃ میں ۱۷۶ نمبر مصاحف کے تحت اور ایک نسخہ مکتبہ جامعۃ القاہرۃ میں موجود ہے۔[1]
اس کے بعد تسلسل کے ساتھ مصاحف کی طباعت کا عمل شروع ہوگیا اور بالتدریج بلاداسلامیہ میں بھی داخل ہو گیا… چنانچہ دارالخلافۃ العثمانیۃ، مصر اور ہندوستان سمیت متعدد بلاد اسلامیہ میں مطبوعہ مصاحف نمودار ہوئے۔
چودہویں صدی ہجری کے أوائل میں مصر میں ’’ارشاد القراء والکاتبین اِلی معرفۃ رسم الکتاب المبین‘‘ کے مؤلف رضوان ابن محمد الشھیر المخللاتی کا لکھا ہوا مصحف مشہور ہوا۔ جو ۱۳۰۸ھ… ۱۸۹۰ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آیا۔ موصوف نے اس مصحف کی طباعت میں رسم عثمانی اور ضبط کے ان خصائص کا اہتمام کیا ہے، جن کی طرف ہم پہلے اشارہ کر آئے ہیں۔
۱۳۳۷ھ میں مشیخۃ الأزھر کی جانب سے مصحف شریف کی نگرانی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے زیر نگرانی روایت حفص بن سلیمان بن مغیرہ الأسدی الکوفی لقراء ۃ عاصم بن ابی البخود الکوفی التابعی، عن ابی عبد الرحمن، عبد اللہ بن حبیب السلمی، عن عثمان بن عفان، وعلی بن ابی طالب، وزید بن ثابت، وابی بن کعب، عن النبی صلي الله عليه وسلم کے مطابق مصحف طبع کیا گیا۔
یہ مصحف شیخ محمد علی الحسینی الشھیر بالحداد نے اپنے خط سے لکھا تھا۔ یہ کمیٹی شیخ محمد علی الحسینی اور حفنی ناصف، مصطفی عنانی اور أحمد الاسکندری جیسے کبار اساتذہ پر مشتمل تھی۔ اس مصحف کا طبع
[1] مناہل العرفان: ۱/۴۰۳۔ مباحث فی علوم القرآن لصبحی الصالح:۹۹، رسم المصحف لغانم قدوری: ۶۰۱، ۶۰۲.